بنگلہ دیش میں طلبہ کی قیادت میں آنے والے انقلاب کے نتیجے میں امر وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی طویل حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والے آئینی اصلاحات کمیشن نے اتوار کو ”فسطائیت“ ختم کرنے کا عہد کیا ہے تاکہ ملک میں جمہوریت کی حفاظت کی جاسکے۔

کمیشن کو اپنی سفارشات 31 دسمبر تک عبوری حکومت کو جمع کرانی ہیں – یہ نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کے عہد کے مطابق بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا حصہ ہے، جنہیں اگست کی بغاوت کے بعد ملک کا ”چیف ایڈوائزر“ مقرر کیا گیا تھا۔

اصلاحات کمیشن کے صدر علی ریاض، جو کہ الینوائے اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر بھی ہیں، نے کہا کہ مقصد ایسا آئین تیار کرنا ہے جو بنگلہ دیشیوں کی ”خواہشات“ کی عکاسی کرے۔

اکتوبر کے اوائل میں عبوری حکومت کی جانب سے کمیشن کی تشکیل کے بعد پہلی بار صحافیوں سے بات کرتے ہوئے علی ریاض نے کہا کہ موجودہ آئین کے تحت وزیر اعظم کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اور اختیارات کی مرکز وزیر اعظم ہونے سے فسطائیت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طاقت میں توازن کا فقدان فاشزم کا منبع ہے۔

دیگر اراکین میں سینئر بیرسٹرز، ڈھاکہ یونیورسٹی کے لاء پروفیسرز، انسانی حقوق کے کارکن اور ایک اسٹوڈنٹ لیڈر شامل ہیں۔

اس عمل میں آئینی ماہرین، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کے دور شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ تجاویز پر تبادلہ خیال کرے گی اور ان کی سفارشات کمیشن کو ارسال کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حتمی مسودہ بات چیت کے سلسلے کے بعد قائم کیا جائے گا۔

حسینہ واجد کے 15 سالہ دور حکومت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں جن میں بڑے پیمانے پر حراست اور ان کے سیاسی مخالفین کے ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔

ان کی حکومت پر عدالتوں اور سول سروس کو سیاسی رنگ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اقتدار کی خاطر جمہوری کنٹرول کو ختم کرنے کے لئے یکطرفہ انتخابات کرانے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔

محمد یونس اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ انہیں عوامی انتظامیہ کا ’مکمل طور پر ٹوٹا ہوا‘ نظام ورثے میں ملا ہے جس میں مستقبل میں آمریت کی واپسی کو روکنے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Comments

200 حروف