ڈھاکہ کی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز کہا ہے کہ لبنان میں فضائی حملے میں ایک بنگلہ دیشی کارکن جاں بحق ہو گیا ہے اور اسرائیلی بمباری سے شہریوں کی واپسی کی کوششیں متاثر ہوئی ہیں۔
وزارت خارجہ کا اندازہ ہے کہ اس کے 70،000 سے 100،000 کے درمیان شہری لبنان میں کام کر رہے ہیں ، جن میں سے زیادہ تر مزدور یا گھریلو ملازم ہیں۔
ڈھاکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے ساتھ مل کر پہلی پرواز کے ذریعے گزشتہ ماہ بیروت سے بڑی تعداد میں بنگلہ دیشیوں کو وطن واپس لایا گیا تھا۔
لبنان میں بنگلہ دیش کے سفیر جاوید تنویر خان نے ایک بیان میں کہا کہ 31 سالہ محمد نظام ہفتے کی سہ پہر ایک مبینہ حملے میں اس وقت ہلاک ہوا جب وہ بیروت میں کام کرنے کے لیے جاتے ہوئے ایک کافی شاپ پر رکے تھے۔
محمد جلال الدین نے بتایا کہ ان کے چھوٹے بھائی نظام ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے بیروت میں رہ رہے ہیں اور وہ ان 1800 بنگلہ دیشیوں میں شامل نہیں تھے جنہوں نے انخلا کی پرواز کے لیے اندراج کرایا تھا۔
جلال الدین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم اسے اپنے آبائی گھر میں دفن کرنا چاہتے ہیں اور اب حکومت کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
تاہم بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار شاہ محمد تنویر منصور نے کہا کہ بیروت کے لیے پرواز کا انتظام کرنا مشکل ہے۔
ترجمان نے کہا، “جاری جنگ کے ساتھ، لبنان سے بنگلہ دیش کے لئے شاید ہی کوئی پرواز ہے۔
انہوں نے کہا کہ“ہمارے شہریوں کو وطن واپس لانا مشکل ہوتا جا رہا ہے جنہوں نے گھر واپس جانے کے لئے اندراج کرایا ہے۔
اسرائیل نے ستمبر میں لبنان کے حزب اللہ گروپ کے خلاف اپنی فضائی کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ کیا تھا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے تھے۔
اس کے بعد سے اس نے زمینی حملہ شروع کیا ہے جس کا مقصد گروپ کو اپنی شمالی سرحد سے پیچھے دھکیلنا ہے۔
حزب اللہ گزشتہ ایک سال سے اسرائیل پر ہزاروں میزائل داغ چکی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں اسرائیلی بے گھر ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 23 ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک لبنان میں کم از کم 1930 افراد مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 30 ستمبر کو شروع ہونے والی زمینی کارروائیوں کے بعد سے لبنان کی مہم میں اب تک 38 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
Comments