اسرائیل نے جمعرات کو جنوبی لبنان میں حزب اللہ کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں پر بمباری کرکے لبنانی ملیشیا پر مزید دباؤ بڑھادیا ہے۔ اس سے پہلے دو دھماکوں کی لہر نے حزب اللہ کے مواصلاتی نظام کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 37 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

اسرائیل نے ان حملوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جن میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کے زیر استعمال پیجرز اور واکی ٹاکیز سپر مارکیٹوں، سڑکوں اور جنازوں کے دوران دھماکوں سے پھٹ پڑے تھے۔

ایران کے حمایت یافتہ گروپ نے اسرائیل پر غیر معمولی حملوں کا الزام عائد کیا ہے اور اس کے رہنما حسن نصراللہ جمعرات کے روز ایک تقریر کریں گے جس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ گروپ کس طرح جوابی حملوں کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔

لبنان کے وزیر صحت کے مطابق 2 روز کے دوران ہونے والے ان دھماکوں میں 2 بچوں سمیت 37 افراد جاں بحق اور 2900 سے زائد زخمی ہوئے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے بدھ کے روز لبنان کے ساتھ اپنے ملک کی سرحد کے حوالے سے کہا “ کشش ثقل کا مرکز شمال کی طرف بڑھ رہا ہے۔“

انہوں نے متنبہ کیا کہ ہم جنگ کے ایک نئے مرحلے کے آغاز پر ہیں۔

حزب اللہ فلسطینی گروپ حماس کی اتحادی ہے جو 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے غزہ میں جنگ لڑ رہی ہے۔

تقریبا ایک سال سے اسرائیل کی جارحیت کا مرکز غزہ ہے جس پر حماس کی حکومت ہے۔

لیکن اس کی افواج اپنی شمالی سرحد پر حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ تقریبا روزانہ جھڑپوں میں مصروف ہیں جس میں لبنان میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر جنگجو ہیں جبکہ اسرائیل میں بھی درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

دو طرفہ بمباری کے سبب سرحد کے دونوں جانب رہنے والے ہزاروں افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

جمعرات کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی چھ ”تنصیبات“ اور ہتھیار ذخیرہ کرنے والے ایک مقام کو رات بھر حملوں سے نشانہ بنایا۔

لبنان کی قومی خبر ایجنسی نے بھی جنوبی علاقوں میں کئی شہروں پر اسرائیلی حملوں اور گولہ باری کی رپورٹ دی۔

اپنے مواصلاتی نظام پر حملوں سے پریشان ہونے والی حزب اللہ کا کہناہے کہ ان مجرمانہ حملوں کا مکمل ذمہ دار صرف اسرائیل ہی ہے جس سے انتقام لیا جائے گا۔

جمعرات کو حزب اللہ نے کہا کہ دھماکوں میں اس کے 25 اراکین جاں بحق ہوئے ہیں۔ گروپ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ کم از کم 20 اراکین زیر استعمال واکی ٹاکیز پھٹنے کے سبب جاں بحق ہوئے۔

’وسیع تر جنگ‘

لبنان کے وزیر خارجہ عبد اللہ بو حبیب نے کہا ہے کہ لبنان کی خودمختاری اور سلامتی پر کھلم کھلا حملہ ایک خطرناک پیش رفت ہے جو وسیع تر جنگ کا اشارہ دے سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل لبنان کے وزیر اعظم نجیب مکاتی نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ’تکنیکی جنگ‘ بارودی مواد سے لدی ڈیوائسز سے حملوں کی مخالفت کرے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر نے کہا ہے کہ ان کا ملک بیروت میں اپنے سفیر کے دھماکوں میں زخمی ہونے کے بعد جوابی اقدامات کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

وائٹ ہاؤس، جو غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کی کوششوں کو بچانے پر زور دے رہا ہے، نے تمام فریقوں کو کشیدگی میں اضافہ نہ کرنے کیلئے خبردار کیا ہے۔

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ موجودہ بحران کا حل اضافی فوجی کارروائیاں ہیں۔

اسرائیلی اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کو غزہ جنگ کا سبب بننے والے حملوں کے نتیجے 1،205 اسرائیلی ہلاک ہوئے جن میں بیشتر عام شہری تھے۔ ان میں دوران قید ہلاک ہونے والے یرغمالی بھی شامل ہیں۔

فلسطینی گروپ کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والے 251 اسرائیلی، جن میں سے 33 کی ہلاکت کی تصدیق اسرائیل کرچکا ہے، میں سے 97 اب بھی غزہ میں قید ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 41 ہزار 272 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد تسلیم کیا ہے۔

بدھ کے روز غزہ میں شہری دفاع کے ادارے نے کہا کہ اسکول سے پناہ گاہ میں تبدیل ہونے والے ایک مقام پر اسرائیلی حملے میں 5 افراد شہید ہوئے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کو نشانہ بنایا۔

لبنان میں ہونے والے دھماکوں سے بڑی تعداد میں زخمیوں کا معاملہ طبی عملے کیلئے بھی شدید مشکلات کا سبب بنا۔

بیروت کے ایک اسپتال میں ڈاکٹر جوئل خضرا کا کہنا تھا کہ بیشتر زخمیوں کو آنکھوں اور ہاتھوں پر زخم آئے، متعدد کی انگلیاں کٹ گئیں جبکہ کئی کو آنکھوں پر چھرے لگے اور متعدد لوگ بینائی کھو بیٹھے ہیں۔

لبنان کے دارالحکومت کے ایک اور اسپتال کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انہوں نے رات بھر خدمات انجام دیں اور اتنی بڑی تعداد میں زخمی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کو فراہم کرنے سے پہلے ہی ممکنہ طور پر ان ڈیوائسز میں بارودی بواد نصب کیا گیا تھا۔

ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ لبنانی تحقیقات کے ابتدائی نتائج سے پتہ چلا ہے کہ پیجرز کو ذرائع سے ہدف بنایا گیا۔

عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکوں کیلئے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈیوائسز تیار کی گئی تھیں اور ان میں بیٹری کے ساتھ دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔

حزب اللہ کے ایک قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیجرز کو حال ہی میں درآمد کیا گیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں کمپنی کے اندر ہی بارودی مواد سے لیس کیا گیا۔

نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے بعد کہ بدھ کے روز پھٹنے والے پیجرز کو تائیوانی مینوفیکچرر گولڈ اپولو سے آرڈر کیا گیا تھا کمپنی نے کہا کہ انہیں اس کے ہنگری کے پارٹنر بی اے سی کنسلٹنگ کے ایف ٹی نے تیار کیا تھا۔

بڈاپسٹ میں حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ کمپنی ایک تجارتی ثالث ہے جس کی ہنگری میں کوئی مینوفیکچرنگ یا آپریشنل سائٹ نہیں ہے۔

جاپانی کمپنی آئی کام نے کہا ہے کہ لبنان میں بدھ کو ہونے والے دھماکوں میں مبینہ طور پر استعمال ہونے والے ریڈیو کے ماڈل کی تیاری 10 برس قبل ہی بند کردی تھی۔

اسرائیل اور ایران کی دشمنی کی ایک اور علامت کے طور پر، اسرائیلی پولیس اور شین بیٹ سیکورٹی سروس نے کہا ہے کہ انہوں نے ایک اسرائیلی شہری کو گرفتار کیا ہے جس پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت اعلیٰ عہدیداروں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔

Comments

200 حروف