اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے اتوار کے روز اپنے چیف آف اسٹاف کو نیا وزیر اعظم نامزد کیا، شاہی محل کے مطابق انہیں پارلیمانی انتخابات کے بعد نئی حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم بشر الخصاونہ نے اتوار کے روز شاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔

مملکت کے آئین کے تحت حکومت عام طور پر قانون ساز انتخابات کے بعد استعفیٰ دیتی ہے۔ وزیر اعظم کا تقرر پارلیمنٹ کے بجائے بادشاہ کرتا ہے کیوں کہ پارلیمان کا اختیار محدود ہوتا ہے۔

شاہی محل کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہ عبداللہ نے اتوار کے روز جعفر حسن کو نئی حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

چیف آف اسٹاف ہونے کے ساتھ ساتھ 56 سالہ حسن اس سے قبل منصوبہ بندی کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

منگل کو ہونے والے انتخابات میں اردن کی معروف اسلامی جماعت اسلامک ایکشن فرنٹ 138 میں سے 31 نشستیں جیت کر پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔

آئی اے ایف اردن میں اخوان المسلمون کی ایک سیاسی شاخ ہے اور اس کے نتیجے میں اسلام پسندوں کو 1989 کے بعد سے ان کی سب سے بڑی نمائندگی ملی ہے۔

32 فیصد کم ٹرن آؤٹ کے باوجود پارٹی کی کامیابی اس وقت ہوئی جب رائے دہندگان معاشی بدحالی اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی گروپ حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ سے مایوس ہیں۔

اردن نے 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور مصر کے بعد ایسا کرنے والی دوسری عرب ریاست بن گئی تھی لیکن گذشتہ اکتوبر میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے مسلسل احتجاج اس معاہدے کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

ملک کی تقریبا نصف آبادی فلسطینی نژاد ہے۔

55 سالہ الخصاونہ اکتوبر 2020 سے حکومت کی سربراہی کر رہے تھے۔

اردن کی پارلیمنٹ دو ایوانی ہے۔ منتخب پارلیمنٹ کے علاوہ ایک سینیٹ بھی ہے جس میں بادشاہ کی طرف سے مقرر کردہ 69 ارکان ہیں۔

غزہ کی جنگ نے اردن میں سیاحت کو متاثر کیا ہے جس کا مجموعی مقامی پیداوار کا تقریبا 14 فیصد اس شعبے پر منحصر ہے۔

Comments

200 حروف