افغانستان نے بدھ کے روز جنوبی ایشیا سے گزرنے والی 10 ارب ڈالر مالیت کی گیس پائپ لائن پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب افغان حکام نے ہمسایہ ملک ترکمانستان میں پائپ لائن کی تکمیل کا جشن منانے کیلئے ترکمانستان میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی۔

ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت سے گزرنے والی تاپی پائپ لائن پر پیش رفت جنگ سے تباہ حال افغانستان میں سیکورٹی کے مسائل کی وجہ سے بار بار تاخیر کا شکار رہی ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے تبصرے میں کہاکہ آج سے افغانستان کی سرزمین پر آپریشن شروع کیا جائے گا۔

ترکمانستان کے علاقے اسماعیل چشما میں سرحدی تقریب میں افغان وزیر اعظم حسن اخوند سمیت دونوں اطراف کے حکام نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا۔

ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدو نے تقریب میں براہ راست نشر ہونے والے ایک ویڈیو میں کہا کہ اس منصوبے سے نہ صرف شریک ممالک بلکہ پورے خطے کے ممالک کی معیشتوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

تاہم ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اس منصوبے کا– جس کی اب تک مکمل طور فنڈنگ نہیں کی گئی ہے– مزید ایک دہائی تک آپریشنل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

افغانستان کے سرحدی صوبے ہرات میں اس موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا اور دارالحکومت کے اطراف منصوبے کے جشن کے پوسٹر آویزاں کیے گئے تھے۔

اس پائپ لائن کے ذریعے ترکمانستان کے جنوب مشرق میں واقع گالکینیش گیس فیلڈ سے ہر سال 33 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس نکالی جائے گی۔

یہ پائپ لائن 1800 کلومیٹر (1120 میل) طویل پائپ لائن کے ذریعے افغانستان سے گزرے گی جس میں جنوب میں ہرات اور قندھار بھی شامل ہیں جس کے بعد یہ بلوچستان سے گزرتے ہوئے بھارتی پنجاب میں کے علاقے فاضلکا تک پہنچے گی۔

افغان میڈیا کے مطابق پاکستان اور بھارت 42 فیصد گیس کی ترسیل کریں گے جبکہ افغانستان 16 فیصد گیس خریدے گا جبکہ کابل کو بھی سالانہ 50 کروڑ ڈالر کی منافع بخش ٹرانزٹ فیس سے فائدہ ہوگا۔

ترکمان ستان کی جانب سے کام 2015 میں شروع ہوا تھا اور ابتدائی طور پر اسے 2018 میں افغانستان میں شروع ہونا تھا لیکن بار بار تاخیر ہوئی ہے۔

اس پائپ لائن سے متعلق بھارت کے عزم پر اس سے قبل بھی پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات اور قدرتی گیس کی منڈیوں تک آسان رسائی پر سوالات اٹھائے جا چکے ہیں اور ان مسائل کو ممکنہ رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان حکام کے لیے یہ سب سے اہم ترقیاتی منصوبہ ہے اور اقتدار میں آنے سے غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف ان کی دو دہائیوں سے جاری شورش کا خاتمہ ہوا ہے۔

یہ پائپ لائن حکومت کو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان علاقائی تعاون میں اسٹریٹجک کردار فراہم کرتی ہے جسے توانائی کے بڑے خسارے کا سامنا ہے۔

افغانستان اگرچہ اب بھی مغرب کی جانب سے اقتصادی اور مالی پابندیوں کا شکار ہے لیکن اس وقت وہ توانائی، کان کنی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جولائی کے آخر میں افغانستان اور چین نے باضابطہ طور پر کابل کے قریب دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ذخائر میں تانبے کی کھدائی کے ایک بڑے منصوبے کا دوبارہ آغاز کیا جو 2008 سے تعطل کا شکار تھا۔

Comments

200 حروف