بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی حالیہ خراب کارکردگی نے کھیل میں سیاست کی مداخلت پر بحث کو جنم دیا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اوپر کی سطح پر اقربا پروری میدان میں کامیابی کو نقصان پہنچارہی ہے۔

بنگلہ دیش کے ہاتھوں ہوم سیریز میں دو صفر کی شکست کے بعد پاکستان گزشتہ ہفتے آٹھویں نمبر پر آگیا تھا جو تقریبا 6 دہائیوں میں اس کی بدترین ٹیسٹ رینکنگ ہے۔

یہ کرکٹ کے شوقین ملک کیلئے 10 واں ہوم ٹیسٹ تھا جس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جو گزشتہ سال 50 اوورز اور ٹی 20 ورلڈ کپ دونوں سے ذلت آمیز شکست کے بعد دیکھنے کو ملی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے موجودہ چیئرمین محسن نقوی ہیں، جو وزیر داخلہ کی حیثیت سے دوسرے عہدے پر بھی فائز ہیں۔

گزشتہ دو سال میں پاکستان کرکٹ نے 4 کوچز،3 بورڈ سربراہان اور3 کپتانوں کو تبدیل کیا ہے – ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عدم استحکام سیاستدانوں کی خواہشات پر مبنی ہے۔

پی سی بی کے سابق میڈیا منیجر احسن افتخار ناگی نے کہا کہ اس کا ٹیم کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بورڈ انتظامیہ افراتفری اور دائمی عدم استحکام کا شکار ہونگی تو اس کا میدان میں بھی اثر پڑے گا۔

پسندیدہ لوگوں کو مسلط کردیا

کرکٹ اب تک پاکستان کا مقبول ترین کھیل رہا ہے جس میں کھلاڑیوں کو قومی ہیرو کے طور پرمانا جاتا ہے، بڑے برانڈز کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور جب کرکٹ کے بڑے ایونٹس ہورہے ہوتے ہیں تو سڑکیں خالی ہوجاتی ہیں ۔

یہ کھیل معاشرے کی تمام تقسیموں کو ختم کرتا ہے جس سے 240 ملین سے زیادہ آبادی والے ملک میں اس کھیل کو بہت زیادہ ثقافتی اور سیاسی رنگ ملتا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے 1992 کے ورلڈ کپ میں ٹیم کی قیادت کرنے کے بعد بین الاقوامی کھلاڑی کی حیثیت سے کامیابی سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔

وہ 2018 سے 2022 تک وزیراعظم رہے لیکن فی الحال وہ ان الزامات میں جیل میں ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں انتخابات لڑنے سے روکنے کے لیے تیار کئے گئے تھے۔

اس ہفتے انہوں نے جیل سے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ کرکٹ جیسے ٹیکنیکل کھیل کو چلانے کیلئے پسندیدہ لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ محسن نقوی کی اہلیت کیا ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ محسن نقوی نے ٹیم کو تباہ کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب بدعنوان اور نااہل افراد کو ریاستی اداروں میں اقتدار کے عہدوں پر بٹھادیا جاتا ہے۔

اقربا پروری اور سرپرستی پاکستان میں عام ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے انسداد بدعنوانی کے ٹکٹ پر مہم چلائی لیکن پھر طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے۔

قومی ٹیم کی تنزلی سابق سپر اسٹار کے دور اقتدار سے شروع ہوئی جب انہوں نے اپنے پسندیدہ پی سی بی سربراہ کا انتخاب کیا اور کھیل کے ڈومیسٹک فارمیٹ میں مداخلت کی۔

کھیلوں کی معلومات نہیں

نجام سیٹھی جو ایک صحافی ہیں اور تین بار پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سربراہ کے طور پر منتخب ہوچکے ہیں نے کہا کہ اس عہدے پر آپ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں ،یہ ایک بے فکری کی نوکری ہے جو صرف شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جنرل، جج اور بیوروکریٹس کو کھیلوں میں دلچسپی کی وجہ سے تعینات کیا جاتا ہے حالانہ انہیں کھیلوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ ایسے کرکٹرز کی تقرری کی گئی ہے جن کے پاس کھیل کا علم ہے لیکن کوئی انتظامی تجربہ نہیں ہے۔

پاکستان کی آخری بڑی کامیابی 2017 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ہے ۔ ٹیم نے فروری 2021 کے بعد سے ہوم گراؤنڈ پر کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا ہے۔

ان کی آخری قابل ذکر کارکردگی 2022 کا ٹی 20 ولڈکپ ہے جس میں پاکستان نے فائنل تک رسائی حاصل کی تھی ۔ تاہم 2024 کے ایونٹ میں وہ امریکا اور آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہو گئے تھے۔

بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کے بعد محسن نقوی کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے ۔

ایکسپریس ٹربیون کے مطابق 1998 کے بعد سے منتخب حکومتوں نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو باری باری پی سی پی چیئرمین منتخب کیا جو اپنے ناسمجھی طریقے سے کھیل کو چلا رہے ہیں۔

Comments

200 حروف