بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (بی ای اینڈ او ای) اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن (او ای سی) کے مطابق مالی سال 25-2024 کے اقتصادی سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ بیرون ملک روزگار کے لیے 7,27,381 پاکستانی مزدور رجسٹر کیے گئے۔ یہ سروے پیر کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیش کیا۔

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق ان مزدوروں میں سے 62 فیصد سے زائد یعنی 4,52,562 افراد نے سعودی عرب کا رخ کیا، جب کہ 11 فیصد کارکن عمان گئے۔ متحدہ عرب امارات نے 64,130 (9 فیصد)، قطر نے 40,818 (6 فیصد)، بحرین نے 25,198 (3 فیصد) اور ملائیشیا نے 5,790 (1 فیصد) پاکستانی مزدوروں کو روزگار فراہم کیا۔

سال 2024 میں سب سے زیادہ بیرون ملک جانے والے مزدوروں کا تعلق پنجاب سے تھا جن کی تعداد 4,04,345 رہی۔ اس کے بعد خیبرپختونخوا سے 1,87,103، سندھ سے 60,424 اور قبائلی علاقوں سے 29,937 افراد بیرون ملک روانہ ہوئے۔

اقتصادی سروے 25-2024 میں موجودہ مالی سال کے لیے بے روزگاری کی شرح کا تخمینہ فراہم نہیں کیا گیا۔

پاکستان نے مالی سال 25-2024 میں 3.6 فیصد جی ڈی پی شرحِ نمو کا ہدف مقرر کیا تھا، تاہم اصل شرح نمو صرف 2.7 فیصد رہی۔

2024 میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی مہارت کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ان میں اکثریت غیر ہنر مند اور نیم ہنر مند کارکنوں پر مشتمل تھی، جب کہ درمیانے اور اعلیٰ مہارت رکھنے والے پیشہ ور افراد کا تناسب کم رہا۔

اعداد و شمار کے مطابق 50 فیصد یعنی 3,66,092 کارکن غیر ہنر مند تھے، جب کہ 35 فیصد یعنی 2,55,706 کارکن ہنر مند تھے۔

اگرچہ 2023 کے مقابلے میں معمولی کمی دیکھی گئی ہے، لیکن عالمی سطح پر تعمیرات، گھریلو کام اور زراعت جیسے شعبوں میں غیر ہنر مند مزدوروں کی مانگ بدستور زیادہ ہے۔

سال کے آغاز میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ایک بیان میں کہا کہ ملک کی عالمی سطح پر پھیلی ہوئی برادری کو ”برین ڈرین“ نہیں بلکہ ایک اہم ”برین گین“ سمجھا جانا چاہیے۔

ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو لوگ ’برین ڈرین‘ کا راگ الاپتے ہیں وہ جان لیں کہ یہ درحقیقت برین گین ہے، اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اس کی بہترین مثال ہیں۔

ساتویں مردم و خانہ شماری 2023 کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 15 لاکھ ہو چکی ہے، جو سالانہ 2.55 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اس میں 12 کروڑ 43 لاکھ (51.5 فیصد) مرد اور 11 کروڑ 71 لاکھ (48.5 فیصد) خواتین شامل ہیں۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن میں 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد کا تناسب 26 فیصد ہے، جب کہ 15 سے 59 سال کی عمر کے افراد، یعنی ورکنگ ایج گروپ، کا تناسب 53.8 فیصد ہے۔ یہ ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ ملک کے لیے معاشی ترقی اور وسعت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان کے لیے برین ڈرین ایک تشویشناک مسئلہ بنتا جا رہا ہے، کیونکہ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد زیادہ تنخواہوں، جدید ٹیکنالوجی، بہتر معیارِ زندگی اور سیاسی استحکام کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

Comments

200 حروف