پاکستان آج آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کرے گا جس میں اقتصادی ترقی کو نئی رفتار دینے اور بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں دفاعی اخراجات کیلئے اضافی وسائل کی فراہمی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اسلام آباد کو نہ صرف اپنے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے اندر رہنا ہوگا بلکہ اپنے سب سے بڑی برآمدی منڈی — امریکہ — کی جانب سے نئی تجارتی پابندیوں کے نفاذ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت آئندہ مالی سال کے لیے 17.6 کھرب روپے (62.45 ارب ڈالر) کا بجٹ پیش کرے گی جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 6.7 فیصد کم ہوگا۔ رپورٹس کے مطابق مالی سال 2025-26 کے لیے مالی خسارہ جی ڈی پی کے 4.8 فیصد تک محدود رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو رواں مالی سال کے 5.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ دفاعی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد اضافے کی توقع رکھتے ہیں جس کا ازالہ ممکنہ طور پر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیوں کے ذریعے کیا جائے گا۔
پاکستان نے رواں مالی سال کے دوران دفاع کے لیے 2.1 کھرب روپے (7.45 ارب ڈالر) مختص کیے تھے جن میں سے 2 ارب ڈالر سازوسامان اور دیگر اثاثوں کے لیے مختص تھے۔
اضافی 563 ارب روپے (1.99 ارب ڈالر) فوجی پنشنز کے لیے مختص کیے گئے جو سرکاری دفاعی بجٹ میں شامل نہیں کیے جاتے۔
بھارت کے مالی سال 2025-26 (اپریل تا مارچ) کے لیے دفاعی اخراجات 78.7 ارب ڈالر مقرر کیے گئے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 9.5 فیصد زیادہ ہیں۔ اس میں پنشنز اور سازوسامان کے لیے مختص 21 ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔ بھارت نے مئی میں پاکستان کے ساتھ ہونے والے تنازع کے بعد اخراجات میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے 4.2 فیصد اقتصادی شرحِ نمو کا ہدف مقرر کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے معیشت کو مستحکم کرلیا ہے جو ابھی 2023 تک قرضوں کے نادہندہ ہونے کے خطرے سے دوچار نظر آرہی تھی۔
رواں مالی سال اقتصادی شرحِ نمو امکاناً 2.7 فیصد رہے گی جو گزشتہ سال بجٹ میں مقرر کردہ ابتدائی ہدف 3.6 فیصد سے کم ہے۔
پاکستان کی اقتصادی نمو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصی پیچھے ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے مطابق سال 2024 کے دوران جنوبی ایشیائی ممالک نے اوسطاً 5.8 فیصد کی شرح سے ترقی کی جب کہ 2025 میں 6.0 فیصد نمو کی توقع ہے۔
شرح سود میں کمی ناکافی قرار
حکومت کا کہنا ہے کہ شرح سود میں مرکزی بینک کی جانب سے مسلسل کمی کے بعد قرض لینے کی لاگت میں نمایاں کمی معیشت کی توسیع میں مددگار ثابت ہونی چاہیے۔
تاہم ماہرین اقتصادیات خبردار کرتے ہیں کہ صرف مالیاتی پالیسی کافی نہیں ہوگی، کیونکہ مالی دباؤ اور آئی ایم ایف کے مقرر کردہ اصلاحاتی اقدامات اب بھی سرمایہ کاری پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کو کہا تھا کہ وہ پاکستان کے ماضی کے معاشی عروج و زوال کے چکروں سے بچنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میکرو اکنامک استحکام جو ہم نے حاصل کیا ہے ہم اس راستے پر مکمل طور پر قائم رہنا چاہتے ہیں، اس بار ہم بالکل واضح ہیں کہ ہم اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
بجٹ میں ٹیکس بیس کو وسیع کرنے، زرعی آمدنی پر ٹیکس قوانین کو نافذ کرنے، اور صنعت کو دی جانے والی سرکاری سبسڈیز کو کم کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ یہ اقدامات گزشتہ موسم گرما میں 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ کے معاہدے کی شرائط پوری کرنے کے لیے ہیں۔
ٹیکس حکام کے مطابق سال 2024 میں محض 1.3 فیصد آبادی نے انکم ٹیکس ادا کیا جبکہ زراعت اور ریٹیل شعبے بڑی حد تک ٹیکس نیٹ سے باہر رہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ زراعت، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے سمیت اصلاحات کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے۔
ایس اینڈ پی گلوبل مارکیٹ انٹیلی جنس کے سینئر ماہرِ معاشیات احمد مبین نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ مالی سال 2025-26 کے لیے مقرر کردہ ریونیو ہدف پورا نہیں ہوسکے گا۔
احمد مبین کے مطابق یہ شارٹ فال زیادہ تر اعلان کردہ اقدامات کے مؤثر طور پر نافذ نہ ہونے اور عمومی طور پر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے ٹھوس ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے ہوگا۔
Comments