جولائی تا مارچ: حکومتی قرضوں میں 69 فیصد کمی ریکارڈ
رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بجٹ سپورٹ کے لیے حکومتی شعبے کے قرضوں میں نمایاں کمی ہوئی، جو 69 فیصد یعنی 2.9 کھرب روپے رہی۔
اقتصادی سروے کے مطابق جو پیر کو جاری کیا گیا رواں مالی سال جولائی تا مارچ بجٹ سپورٹ کے لیے حکومتی شعبے کی قرضہ گیری کم ہو کر 1.320 کھرب روپے رہی جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 4.220 کھرب روپے تھی۔ یوں 2.9 کھرب روپے کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس عرصے کے دوران حکومت نے اسٹیٹ بینک کو 287.4 ارب روپے واپس کیے جب کہ گزشتہ سال اسی مدت میں 654.7 ارب روپے کی واپسی کی گئی تھی۔
اسی طرح، حکومت نے شیڈول بینکوں سے 1.608 کھرب روپے کا قرض لیا، جو گزشتہ سال اسی عرصے کے 4.874 کھرب روپے کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ اس طرح، حکومتی شعبے کی خالص قرضہ گیری جولائی تا مارچ مالی سال 2024 کے 3.856 کھرب روپے سے کم ہو کر رواں مالی سال 2025 کے اسی عرصے میں 1.019 کھرب روپے تک محدود رہی۔
جائزہ شدہ مدت کے دوران حکومتی قرضہ گیری میں کمی مالی استحکام (فِسکل کنسولیڈیشن) کی عکاس ہے، کیونکہ رواں مالی سال جولائی تا مارچ بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.4 فیصد رہا جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 3.7 فیصد تھا۔
دوسری جانب نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جو رواں مالی سال جولائی تا مارچ بڑھ کر 767.6 ارب روپے تک پہنچ گئی، جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں یہ 265.2 ارب روپے رہی تھی۔ نجی شعبے کے قرضوں میں کاروباری اداروں کو دیے گئے قرضوں میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا، جو اس عرصے میں 830.9 ارب روپے تک پہنچ گئے، جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں یہ 307.8 ارب روپے تھے۔
اقتصادی سروے کے مطابق، قرضوں میں یہ اضافہ بنیادی طور پر مینوفیکچرنگ شعبے کی بدولت ہوا، جس نے 573.1 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 278.7 ارب روپے کا اضافہ ہے۔ مختلف شعبوں کے جائزے میں خوراک کے شعبے کو دیے گئے قرضوں میں کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ ٹیکسٹائل شعبے میں قرض گیری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جو گزشتہ سال کے 26.7 ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 255.1 ارب روپے تک پہنچ گئی۔
دیگر شعبوں میں بھی قرضوں کے حصول میں مضبوط اضافہ دیکھا گیا: تعمیراتی شعبے کو دیے گئے قرضے بڑھ کر 19.9 ارب روپے ہو گئے (گزشتہ سال 4.2 ارب روپے)، رہائش اور خوراک کی خدمات کے شعبے میں قرضے بڑھ کر 40.4 ارب روپے تک پہنچ گئے (گزشتہ سال 2.6 ارب روپے)، جبکہ اطلاعات و مواصلات کے شعبے میں شاندار بحالی دیکھنے میں آئی، جہاں گزشتہ سال 3.0 ارب روپے کی خالص واپسی کے برعکس اس سال 103.5 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے گئے۔
تفصیلی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں اضافہ زیادہ تر ورکنگ کیپیٹل قرضوں میں مرکوز رہا، جو جولائی تا مارچ مالی سال 2025 کے دوران 611.8 ارب روپے تک پہنچ گئے، جو گزشتہ سال 275.7 ارب روپے تھے۔ فکسڈ انویسٹمنٹ قرضوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، جس کی وجہ پیٹرولیم، چینی اور کھاد کے شعبوں میں زیادہ سرمایہ کاری تھی۔
فکسڈ انویسٹمنٹ قرضے رواں جائزہ مدت کے دوران بڑھ کر 236.7 ارب روپے تک پہنچ گئے جو گزشتہ سال محض 47.2 ارب روپے تھے۔ قرضے لینے کے رجحان میں اس بحالی کی بڑی وجہ زیادہ نرم مالیاتی پالیسی ہے، جس کے تحت شرحِ سود میں کمی سے قرض لینا سستا ہو گیا۔ اس کے علاوہ خام مال اور سرمائے کے سامان (مشینری وغیرہ) کی درآمد پر عائد پابندیوں میں نرمی اور کاروباری سرگرمیوں کے بہتر امکانات نے سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے مالیاتی سہولیات کے فروغ میں مدد دی۔
جولائی تا مارچ کموڈیٹی فنانسنگ میں مجموعی طور پر 303.4 ارب روپے کی نیٹ ریٹائرمنٹ ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 362 ارب روپے تھی۔ اس کمی کا بنیادی سبب گندم فنانسنگ میں کمی رہی، جس میں 326.9 ارب روپے کی نیٹ ریٹائرمنٹ ہوئی، جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 427.7 ارب روپے تھی۔
گندم فنانسنگ میں مسلسل کمی ایک اہم پالیسی تبدیلی کی عکاس ہے، کیونکہ وفاقی حکومت نے گندم کی قیمتوں کے تعین سے خود کو الگ کر لیا ہے اور اس عرصے کے دوران پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) نے گندم کی خریداری میں حصہ نہیں لیا۔ اس پالیسی میں تبدیلی کے نتیجے میں گندم کی سپلائی چین میں مالیاتی ضروریات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments