ریڈیو پاکستان کے مطابق، سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں 9 رکنی اعلیٰ سطحی پارلیمانی وفد واشنگٹن اور نیویارک کے کامیاب دوروں کے بعد لندن پہنچ گیا ہے۔

یہ وفد وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے مقرر کیا گیا ہے تاکہ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا جا سکے اور مسئلہ جموں و کشمیر کے حل کی اہمیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اجاگر کیا جا سکے۔

وفد کے دیگر ارکان میں وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی ڈاکٹر مصدق مسعود ملک؛ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اطلاعات و ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی چیئرپرسن اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سابق وزیر تجارت، دفاع اور امور خارجہ انجینئر خرم دستگیر خان، ایم کیو ایم کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیر برائے بحری امور سینیٹر سید فیصل علی سبزواری؛ اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ شامل ہیں۔

وفد میں دو سابق سیکرٹری خارجہ سفیر جلیل عباس جیلانی، جو نگران وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں اور سفیر تہمینہ جنجوعہ بھی شامل ہیں۔

لندن میں یہ وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کرے گا، جن میں پاکستان اور جموں و کشمیر سے متعلق آل پارٹیز پارلیمانی گروپس شامل ہوں گے۔

وفد برطانیہ کے محکمہ خارجہ، دولت مشترکہ اور ڈویلپمنٹ آفس کی قیادت اور اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کرے گا۔

وفد کے ارکان معروف تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا سے بھرپور رابطے کریں گے تاکہ خطے میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کیا جا سکے۔

اپنے دورے کے دوران، وفد بھارت کے غیر ذمہ دارانہ اور جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں پاکستان کے محتاط اور ذمہ دارانہ طرز عمل کو نمایاں کرے گا، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کا مؤقف امن کے لیے ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھنے پر مبنی ہے۔

وفد اس بات پر زور دے گا کہ تنازع اور تصادم کے بجائے بات چیت اور سفارت کاری کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

یہ وفد جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرے گا۔

آبی تنازع سے متعلق ”سندھ طاس معاہدے“ کے معمول کے مطابق فوری بحال ہونے کی ضرورت بھی وفد کے پیغام کا اہم حصہ ہوگی۔

Comments

200 حروف