بھارت میں چھوٹے کریانہ فروشوں سے لے کر بڑے آن لائن فیشن ریٹیلرز تک، ترک مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، ان میں چاکلیٹ، کافی، جام، کاسمیٹکس اور ملبوسات شامل ہیں۔ یہ ردِعمل ترکیہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی حمایت پر سامنے آیا ہے۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اس وقت پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاحوں پر حملے کے بعد فوجی کارروائیاں کیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں چار روز تک جاری رہیں، جس کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوا۔

پیر کے روز آل انڈیا کنزیومر پراڈکٹس ڈسٹری بیوٹرز فیڈریشن (اے آئی سی پی ڈی ایف)، جو ملک بھر میں ایک کروڑ 30 لاکھ چھوٹے کریانہ فروشوں کو سامان فراہم کرتی ہے، نے اعلان کیا ہے کہ وہ ترکیہ میں تیار تمام مصنوعات کا ”غیر معینہ اور مکمل بائیکاٹ“ شروع کر رہی ہے، جس سے چاکلیٹ، ویفرز، جام، بسکٹس اور اسکن کیئر مصنوعات متاثر ہوں گی۔

وال مارٹ کی حمایت یافتہ فلپ کارٹ اور ارب پتی مکیش امبانی کی ریلائنس کے زیر ملکیت بھارتی فیشن ویب سائٹس نے متعدد ترک ملبوساتی برانڈز کو اپنی سائٹس سے ہٹا دیا ہے۔ یہ بات تین ذرائع اور ویب سائٹس کے جائزے سے سامنے آئی ہے۔

اس معاملے کی براہ راست معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ فلپ کارٹ کی فیشن ویب سائٹ Myntra نے ترک برانڈز کی فہرست سے Trendyol جو خواتین کے ملبوسات کے لیے مشہور، LC Waikiki اسٹریٹ اور کیژول ویئر اور Mavi ڈینم جینز بنانے والا معروف برانڈ کو ہٹا دیا ہے۔

دوسرے باخبر ذریعے کے مطابق Myntra نے یہ اقدام ”قومی مفاد“ میں اٹھایا اور اس فیصلے میں وال مارٹ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

ریلیئنس کی فیشن ویب سائٹ AJIO نے بھی ترک برانڈز جیسے Trendyol، Koton اور LC Waikiki کو اپنی ایپ سے ہٹا دیا ہے، اور پیر کے روز ان میں سے کئی مصنوعات کو ”آؤٹ آف اسٹاک“ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ ایک ذریعے نے اس اقدام کی وجہ ”قومی جذبات“ کو قرار دیا۔

فلپ کارٹ، ریلیئنس ریٹیل اور ترک برانڈز Trendyol، LC Waikiki، Koton اور Mavi نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

واضح رہے کہ بھارت نے ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کا باضابطہ حکم جاری نہیں کیا ہے، اور ترکیہ سے بھارت کی سالانہ درآمدات ، جن کی مالیت 2.7 ارب ڈالر ہے، میں زیادہ تر حصہ معدنی ایندھن اور قیمتی دھاتوں پر مشتمل ہے۔

تاہم صارفین کی سطح پر بائیکاٹ پھر بھی ایک بڑا معاشی اثر ڈال سکتا ہے۔ آل انڈیا کنزیومر پراڈکٹس ڈسٹری بیوٹرز فیڈریشن کے مطابق ان کا بائیکاٹ تقریباً 20 ارب روپے (234 ملین ڈالر) مالیت کی ترک غذائی مصنوعات کو متاثر کرے گا۔

جبکہ Trading Economics ویب سائٹ کے مطابق بھارت نے گزشتہ سال ترکیہ سے 81 ملین ڈالر مالیت کے ملبوسات درآمد کیے تھے۔

ہماچل پردیش ، بھارت کی سیب پیدا کرنے والی بڑی ریاستوں میں سے ایک، کے وزیراعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ ترکیہ سے سیب کی درآمد پر پابندی کا مطالبہ کریں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال ترکیہ سے تقریباً 6 کروڑ ڈالر مالیت کے سیب درآمد کیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے فلپ کارٹ نے بھی اعلان کیا کہ وہ ترکیہ کے لیے پروازوں، ہوٹلوں میں قیام اور چھٹیاں گزارنے کے پیکجز کی بکنگ معطل کر رہا ہے تاکہ ”بھارت کے قومی مفاد اور خودمختاری سے یکجہتی“ کا اظہار کیا جا سکے۔

بھارتی شہریوں کی جانب سے ترکیہ کے لیے سیاحتی منصوبے منسوخ کیے جا رہے ہیں جبکہ نئی دہلی حکومت نے ترکیہ کی ایوی ایشن گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی سیلیبی کی سیکیورٹی کلیئرنس بھی منسوخ کر دی ہے۔

رائٹرز کے مطابق ایئر انڈیا نے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حریف ایئرلائن انڈیگو کو ترک ایئرلائن ترکش ایئرلائنز کے ساتھ لیزنگ معاہدے کی اجازت نہ دیں، کیونکہ اس سے نہ صرف کاروباری نقصان ہو سکتا ہے بلکہ انقرہ کی پاکستان کی حمایت کے باعث سیکیورٹی خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں۔

Comments

200 حروف