ٹیرف، وزارت تجارت کی ٹیم جلد واشنگٹن کا دورہ کرے گی
- وزارت تجارت نے امریکہ کی طرف سے عائد کردہ ٹیرف اور تجارتی اقدامات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنے کی غرض سے تمام متعلقہ وزارتوں سے تجاویز طلب کر لیں۔
وزارت تجارت (ایم و سی) نے امریکہ کی طرف سے عائد کردہ باہمی ٹیرف اور تجارتی اقدامات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنے کی غرض سے تمام متعلقہ وزارتوں سے تجاویز طلب کر لی ہیں۔باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈ کو بتایا کہ اس سلسلے میں وزارت تجارت کے زیر قیادت ایک وفد جلد واشنگٹن کا دورہ کرے گا۔
امریکہ نے پاکستان سے درآمدات پر 29 فیصد باہمی ٹیرف عائد کر رکھا ہے، جس کی وجہ پاکستان کے ساتھ 2.99 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکہ پاکستان کی برآمدات کے لیے ایک اہم مارکیٹ ہے، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے شعبے کے لیے۔ سال 2024 میں امریکہ کو پاکستان کی کل برآمدات 5.12 ارب ڈالر رہیں، جن میں سے 3.93 ارب ڈالر، یعنی 76.7 فیصد، صرف ٹیکسٹائل اور ملبوسات پر مشتمل تھیں۔
ذرائع کے مطابق، وزارت تجارت نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سیکریٹری کامرس، جواد پال، کی زیر قیادت ایک ورکنگ گروپ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
وزارت تجارت متعلقہ وزارتوں، محکموں اور نجی شعبے کے شراکت داروں کے ساتھ بھرپور رابطے میں ہے تاکہ امریکہ سے مؤثر بات چیت کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔
وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ تمام متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی جاری بات چیت، تجاویز اور متعلقہ معلومات وزارت تجارت کے ساتھ شیئر کریں اور کسی بھی طور پر امریکی حکام یا اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے براہ راست رابطہ نہ کریں جب تک کہ ان تجاویز کو ورکنگ گروپ یا اسٹیئرنگ کمیٹی کے ذریعے جانچ کر کے منظوری نہ دے دی جائے۔ یہ عمل پاکستان کی سفارتی و تجارتی کوششوں میں ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔
وزارت تجارت کے مطابق، سیکریٹری تجارت کی قیادت میں ایک وفد جلد امریکہ کے حکام سے مشاورت اور مذاکرات کے لیے روانہ ہوگا۔
وزارت تجارت نے یہ بھی کہا ہے کہ متعلقہ وزارتوں سے جڑے تمام مسائل یا تحفظات وزارت تجارت کے ذریعے ہی پہنچائے جائیں تاکہ انہیں مناسب طور پر مذاکرات میں پیش کیا جا سکے۔
مزید براں، وزیر تجارت جام کمال خان نے بڑے برآمد کنندگان سے ملاقات کی، جس میں امریکی ٹیرف پالیسیوں کے خلاف حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ملاقات میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس، چمڑا، سرجیکل، چاول، پھل اور سبزیوں سمیت کئی شعبوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
وزارت کی جانب سے جاری کردہ سرکاری بیان کے مطابق، نجی شعبے نے امریکہ سے متعلق وزارت تجارت کے متحرک کردار کو سراہا۔
وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر تجارت نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی تعاون کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے، جس میں نجی شعبہ کلیدی کردار ادا کرے گا۔ نجی شعبے نے حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
وزارت تجارت نے مزید کہا کہ ہمارے تجارتی و سرمایہ کاری افسران اور سفارتکار امریکہ میں مسلسل رابطے میں ہیں، جنہیں نجی شعبے کے ساتھ ہم آہنگی کا کام سونپا گیا ہے تاکہ ان کے تحفظات کو مشترکہ حکمت عملی میں شامل کیا جا سکے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے مخصوص تحفظات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ پاکستان محدود سطح پر امریکی درآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس سے ملک کا تجارتی توازن متاثر نہ ہو۔
پاکستان کا امریکہ کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس، امریکہ کے عالمی تجارتی خسارے کا محض 0.25 فیصد بنتا ہے، لیکن پاکستان کے لیے یہ ایک اقتصادی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جو بیرونی استحکام اور روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اپٹما کے مطابق، دو شعبے اس مقصد کے لیے موزوں ہیں ایک امریکی کپاس، جو پہلے ہی ڈیوٹی فری ہے، اسے برازیل یا افغانستان سے ہونے والی درآمدات کا متبادل بنایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ای ایف ایس سے جڑے مسائل، جو مقامی یارن کو نقصان پہنچا رہے ہیں، حل کیے جائیں۔ دوسرا ٹیکسٹائل سیکٹر کو ایل این جی کی براہِ راست درآمد کی اجازت دی جائے، جس سے توانائی کے اخراجات میں کمی آئے گی اور امریکی برآمدات کو فروغ ملے گا، جب کہ پاکستان کے تجارتی توازن پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے لیے ریگولیٹری منظوری درکار ہے۔
2025 کی نیشنل ٹریڈ ایسٹی میٹس رپورٹ آن فارن ٹریڈ بیریئرز کے مطابق، امریکی کمپنیوں نے پاکستان میں کرپشن اور کمزور عدالتی نظام کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک بڑا رکاوٹ قرار دیا ہے۔
پاکستان کا وفاقی ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) بدعنوانی کے خلاف قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے، تاہم کاروباری اور سول سوسائٹی کے حلقوں نے اس کے مؤثر ہونے اور مبینہ سیاسی استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
نیب کی وسیع اختیارات کے استعمال سے بعض اوقات ایسے معاملات دوبارہ کھولے گئے ہیں جن پر پالیسی واضح تھی، اور ان کا ہدف بعض باعزت کاروباری ادارے بنے، جس سے غیر ملکی سرمایہ کار بدظن اور مقامی افسران فیصلہ سازی سے ہچکچانے لگے۔
پاکستان نے اگست 2019 میں ایک الیکٹرانک کامرس پالیسی فریم ورک تیار کیا، جس کا مقصد برآمدات میں اضافہ اور ڈیجیٹل معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
یہ فریم ورک جنوری 2022 میں اپنایا گیا، مگر اس میں بعض پابندیاں موجود ہیں جیسے کہ لائسنسنگ، رجسٹریشن، مقامی موجودگی کی شرائط اور سرحد پار ڈیٹا کے بہاؤ پر وسیع پابندیاں۔
پاکستان نے بارہا احتجاج یا مظاہروں کے پیش نظر بڑے شہروں میں موبائل ڈیٹا اور بعض آن لائن سروسز کی معطلی کی، جس سے کھلے اور آزاد انٹرنیٹ کو نقصان پہنچا اور ڈیجیٹل معیشت میں تجارت متاثر ہوئی۔
امریکہ ان اقدامات کے امریکی تجارت و سرمایہ کاری، بالخصوص سروسز کی برآمدات، پر پڑنے والے اثرات کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔
امریکی فوڈ اور کنزیومر پراڈکٹ برآمد کنندگان نے پاکستان میں کسٹمز کی ویلیوایشن میں عدم ہم آہنگی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، جس سے امریکی فریق متاثر ہو رہے ہیں۔
اسی طرح مشینری اور میٹریل سیکٹرز میں یہ رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ کسٹمز حکام نے اشیاء کی قیمت کا تعین اصل لین دین کی قیمت کی بجائے کم از کم طے شدہ قیمت پر کیا، جس سے امریکی کمپنیاں متاثر ہوئیں۔
کسٹمز رول 389 کے تحت شپنگ کنٹینر میں اصل انوائس اور پیکنگ لسٹ رکھنا لازم ہے، جبکہ کسٹمز رول 391 کے تحت یہ ذمہ داری سامان کے مالک اور کیریئر پر عائد ہوتی ہے، اور اس کی عدم تعمیل پر وہ جواب دہ ہوں گے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments