تیل کی قیمتیں چھ ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، جس کی بڑی وجہ اوپیک پلس کا اپریل میں پیداوار میں اضافے کے منصوبے پر عمل درآمد اور وسیع تر مارکیٹ میں امریکہ کی جانب سے کینیڈا، میکسیکو اور چین پر ممکنہ ٹیرف کے خدشات ہیں۔ یہ فیصلہ حیران کن ہے کیونکہ اس سے قبل تمام مجوزہ پیداوار میں اضافے کے منصوبے ملتوی کر دیے گئے تھے تاکہ قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکے۔ اب، رائٹرز کے اندازے کے مطابق، آٹھ اوپیک پلس ارکان نے بتدریج پیداوار بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، جس سے یومیہ 138,000 بیرل کا اضافہ ہوگا، اور اس فیصلے نے تیل کی منڈی کو ایک نازک موڑ پر پہنچا دیا ہے۔

یہ اقدام کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ابھی کیوں؟ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ سیاسی چالوں کا نتیجہ ہے، خاص طور پر سعودی عرب اور روس، جو اوپیک پلس کے کلیدی کھلاڑی ہیں، پر ٹرمپ کے دباؤ کی وجہ سے۔ ٹرمپ کا تیل کی قیمتوں پر مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے، اور اگر وہ دوبارہ وائٹ ہاؤس آتے ہیں تو توانائی کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ ایک بڑے جغرافیائی سیاسی معاہدے کا حصہ ہو سکتا ہے، جہاں روس اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ امریکہ یوکرین کے لیے ایک ایسے امن معاہدے کی کوشش کر رہا ہے جو ماسکو کے حق میں دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ پیداوار کی منجمد پالیسی قیمتوں کو بلند رکھنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے اوپیک پلس کے اراکین کو اس پالیسی کو برقرار رکھنے میں کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔

اس کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی غیر یقینی صورت حال بھی ایک بڑا عنصر ہے۔ امریکہ اپنے مجوزہ ٹیرف کے نفاذ کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے، جو ایک وسیع تر تجارتی جنگ کو جنم دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی طلب پر اثر پڑ سکتا ہے۔ مارکیٹیں واشنگٹن کی یوکرین پر بدلتی ہوئی پالیسی پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فوجی امداد کی معطلی کو تعلقات میں سرد مہری کی علامت سمجھا جا رہا ہے، اور اطلاعات ہیں کہ وائٹ ہاؤس روس کے خلاف کچھ پابندیوں میں نرمی کے امکانات پر غور کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو روسی تیل کی مزید برآمدات منڈی میں آ سکتی ہیں، جو قیمتوں پر مزید دباؤ ڈال سکتی ہیں۔

اس تمام صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے والا عنصر عالمی معاشی منظرنامہ ہے۔ عالمی ترقی کی پیش گوئیاں کمزور ہیں، چین کی معیشت غیر مستحکم بحالی کا سامنا کر رہی ہے، اور یورپ میں توانائی کی طلب مشکلات سے دوچار ہے۔ اسی دوران، غیر اوپیک ممالک خاص طور پر امریکی شیل آئل کی پیداوار مستحکم ہے، جو اوپیک پلس کی حکمت عملی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ اگر روسی تیل کی برآمدات دوبارہ مارکیٹ میں آتی ہیں جبکہ طلب کمزور رہتی ہے، تو تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کا خدشہ بڑھ سکتا ہے، جس سے اوپیک پلس کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔

ایک اور عنصر جو اس صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، وہ امریکہ اور یورپ کی توانائی پالیسیوں میں تبدیلی ہے۔ مغربی معیشتیں صاف توانائی کی طرف بڑھ رہی ہیں اور فوسل فیول پر انحصار کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جس کے باعث طویل المدتی طلب کا منظرنامہ غیر یقینی دکھائی دیتا ہے۔ اوپیک پلس کا حالیہ فیصلہ شاید اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ صرف رسد کو محدود کرنے سے قیمتیں برقرار نہیں رکھی جا سکتیں، خاص طور پر جب طلب میں کمی کے رجحانات واضح ہو رہے ہوں۔

تیل کی منڈیوں کے لیے صورتحال واضح ہے—منفی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، اور عالمی معیشت میں ایسی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو قیمتوں کو مستحکم رکھنا مزید مشکل بنا سکتی ہیں۔ آیا اوپیک پلس دوبارہ کوئی مداخلت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے، لیکن فی الحال، 2022 کے بعد پہلی بار پیداوار میں اضافے کا فیصلہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ یہ گروپ منڈی کی حقیقتوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے تیار ہے بجائے اس کے کہ ان کا براہ راست مقابلہ کرے۔

Comments

200 حروف