پاکستان، جو عالمی گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات سے دوچار ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی طور پر غیر محفوظ ممالک میں پانچویں نمبر پر موجود یہ ملک بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، غیر متوقع موسم اور معاشی نقصانات کا سامنا کر رہا ہے۔ صرف 2022 کے سیلابوں نے 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، جس سے اس مسئلے کی سنگینی اور فوری اقدامات کی ضرورت نمایاں ہوئی ہے۔ حال ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے وزارت موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی اور ورلڈ بینک کی تکنیکی معاونت کے ساتھ پاکستان گرین ٹیکسونومی 2025 متعارف کرائی ہے، جس کا مقصد 2030 تک 348 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو ماحولیاتی موافقت کے منصوبوں میں منتقل کرنا ہے تاکہ یہ سرمایہ کاری پیرس معاہدے اور قومی ماحولیاتی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو۔
گرین ٹیکسونومی 2025 ایک درجہ بندی کا نظام ہے جو پالیسی سازوں، مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کو حقیقی پائیدار سرگرمیوں میں فنڈز مختص کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس میں سات ماحولیاتی اہداف شامل کیے گئے ہیں، جن میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں کمی، آلودگی پر قابو پانے، سرکلر اکانومی کو فروغ دینے اور زمین و پانی کے پائیدار انتظامات جیسے امور شامل ہیں۔ یہ توانائی، مینوفیکچرنگ، ٹرانسپورٹ، تعمیرات، زراعت، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اور فضلہ مینجمنٹ جیسے اہم شعبوں کا احاطہ کرتا ہے تاکہ سرمایہ کاری کو پائیداری کے اہداف سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
اس نظام میں ”کسی بڑے نقصان کا باعث نہ بننے“ کے اصول کو بھی شامل کیا گیا ہے اور سرمایہ کاری کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے: سبز یعنی مکمل طور پر پائیدار، زرد یعنی تبدیلی کے عمل میں شامل، اور سرخ یعنی غیر مستحکم اور گرین فنانس کے لیے نااہل سرگرمیاں۔ اس اقدام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پاکستان کے گرین فنانس کے شعبے میں شفافیت اور معیار کو یقینی بناتا ہے۔ یہ مالیاتی اداروں، سرمایہ کاروں اور کارپوریشنز کو جعلی ماحولیاتی دعوے کرنے سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ مزید برآں، یہ یورپی یونین اور آسیان کے ٹیکسونومی فریم ورکس سے مطابقت رکھتا ہے، جس سے پاکستان بین الاقوامی ماحولیاتی سرمایہ کاری، موسمیاتی غیر ملکی سرمایہ کاری اور گرین بانڈز کی طرف راغب ہو سکتا ہے۔
تاہم، اس نظام کے نفاذ میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ پاکستان میں پالیسی کے نفاذ اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے مسائل ماضی میں بھی رکاوٹ رہے ہیں۔ اگر مضبوط مانیٹرنگ میکانزم نہ بنایا گیا تو یہ منصوبہ بھی ایک اچھے ارادے کے باوجود غیر مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان میں گرین فنانس ایکو سسٹم کمزور ہے، جس کی وجہ سے بینکوں اور سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والی صنعتوں سے ہٹ کر ماحولیاتی طور پر مستحکم شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا مشکل ہوگا جب تک کہ حکومت مضبوط مراعات، ریگولیٹری احکامات، یا خطرے کو کم کرنے کے اقدامات متعارف نہ کرائے۔
منتقلی کے لیے مالی معاونت ایک اور اہم مسئلہ ہے، خاص طور پر سیمنٹ، اسٹیل، ٹیکسٹائل، اور زراعت جیسے بڑے صنعتی شعبوں کے لیے۔ یہ شعبے اگرچہ زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں، لیکن پاکستان کی معیشت کے لیے بھی نہایت اہم ہیں۔ اگرچہ ٹیکسونومی میں ان شعبوں کو ”منتقلی کی سرگرمیوں“ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، مگر اس میں یہ واضح نہیں کہ یہ صنعتیں معاشی بحران کے بغیر کیسے ڈی کاربنائز کریں گی۔ بغیر مناسب مالی معاونت جیسے سبسڈیز، کم شرح سود پر قرضے، یا بلینڈڈ فنانس ماڈلز، یہ شعبے پائیدار طریقوں کی طرف جانے میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں، جو سرمایہ کی نقل مکانی اور ملازمتوں کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ مزید برآں، گرین ٹیکسونومی کو ایسے مالیاتی طریقے بھی متعارف کرانے چاہئیں جو قابل تجدید توانائی، فضلہ مینجمنٹ اور پانی کے تحفظ کے شعبے میں جدیدیت لانے میں مدد دے سکیں، تاکہ کاروباری اداروں کو ماحول دوست ٹیکنالوجیز تک سستی رسائی حاصل ہو۔
گرین ٹیکسونومی 2025 کی کامیابی کے لیے نجی شعبے کا کردار کلیدی ہوگا۔ اگرچہ اس پالیسی کو سرکاری وزارتوں، ریگولیٹرز اور مالیاتی اداروں کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے، لیکن کاروباری برادری کی شراکت داری اور اپنانے کی شرح محدود ہے۔ اس پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت واضح مراعات، آگاہی مہمات اور صلاحیت بڑھانے کے پروگرامز متعارف کرائے تاکہ مالیاتی ادارے اس ٹیکسونومی کو اپنی سرمایہ کاری اور رسک حکمت عملیوں میں ضم کر سکیں۔ مزید یہ کہ، ماحولیاتی پالیسی ہمیشہ وفاقی حکومت کی اولین ترجیح نہیں ہوتی، اس لیے صوبائی سطح پر تعاون کو یقینی بنانا بھی نہایت ضروری ہوگا۔
پاکستان گرین ٹیکسونومی 2025 ایک حوصلہ افزا اور ضروری قدم ہے جو پاکستان کے پائیدار مالی مستقبل کی سمت ایک مثبت پیش رفت فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس کی کامیابی مضبوط حکمرانی، نفاذ اور نجی شعبے کی شمولیت پر منحصر ہوگی۔ اگر اس منصوبے کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے تو یہ پاکستان کی معیشت میں انقلاب لا سکتا ہے، گرین سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتا ہے اور پائیدار ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتا ہے، جس سے پاکستان کو علاقائی سطح پر ایک سرکردہ ماحولیاتی مالیاتی مرکز کے طور پر ابھرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اگر اس پر عملدرآمد کمزور رہا، تو یہ بھی صرف ایک اور پالیسی دستاویز بن کر رہ جائے گی، بہت سے وعدے، لیکن عملی اثرات کے بغیر۔
Comments