درآمدات کا دباؤ بتدریج بڑھ رہا ہے۔ فوری طور پر کرنسی پر کوئی دباؤ نہیں ہے، لیکن مانگ بڑھ رہی ہے۔ ریئل ایفیکٹیو ایکسچینج ریٹ (ریئر) انڈیکس بھی اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے اور امکان ہے کہ یہ آئندہ مہینوں کے دوران 105 کی سطح عبور کرجائے گا۔ درآمدات (شپمنٹ کی بنیاد پر) دسمبر 2002 کے بعد پہلی بار 2024 میں 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئیں۔

تیل کی درآمدات میں اضافے کا رجحان واضح ہے۔ دسمبر 2024 میں تیل کی درآمدات کی مقدار جون 2022 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور نومبر 2024 کی درآمدات بھی گزشتہ مہینوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھیں۔ یہ اشارے بڑھتی ہوئی طلب کی نشاندہی کرتے ہیں، جو ممکنہ طور پر ایران کے راستے اسمگلنگ سے باضابطہ بینکاری چینلز کی طرف منتقلی کی وجہ سے ہے۔

وجہ جو بھی ہو، درآمدات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے ادائیگیوں پر دباؤ انٹر بینک مارکیٹ میں ظاہر ہونے کی توقع ہے کیونکہ ادائیگیاں عام طور پر ایک سے 2 ماہ کے وقفے کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ ان اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہوئے بی آر ریسرچ نے کمرشل بینکوں کے ٹریژری دفاتر اور بیشتر نمائندوں سے رابطہ کیا۔

تاہم اکثریت کا خیال ہے کہ کرنسی کی قدر میں کمی سے متعلق فوری طور پر کوئی دباؤ نہیں ہے کیونکہ ترسیلات زر کی آمد حوصلہ افزا ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کے لئے پرعزم دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی افراد نے زور دیا کہ ایس بی پی کو ایک متوازن مالیاتی پالیسی اختیار کرنی چاہیے اور تجویز دی کہ پیر کو 100 بیسس پوائنٹس سے زیادہ کی شرح میں کمی نہ کی جائے۔ اس کے بعد ایک وقفہ اختیار کیا جائے۔

 ۔
۔

کرنسی پر دباؤ کم کرنے کا ایک اور عنصر کچھ تیل درآمد کنندگان کے لئے ایف ای -25 قرضوں کے تحت سستی ، ڈالرائزڈ فنانسنگ کی دستیابی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بینکوں نے قابل اعتماد صارفین کو ایڈوانس ڈپازٹ ریشو (اے ڈی آر) ٹیکس سے بچنے کے لیے قرض دینے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ بہت سے درآمد کنندگان نے کم شرح پر ڈالر پر مبنی قرضوں کا فائدہ اٹھایا جس میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) نے کافی حصہ اٹھایا۔

 ۔
۔

اسی طرح برآمد کنندگان نے غیر ملکی کرنسی کے قرض حاصل کیے اور مستقبل کی برآمدات کیلئے ادائیگیاں اب میچیور ہو رہی ہیں جس سے انٹربینک مارکیٹ میں پیسوں کی فراہمی میں اضافہ ہورہا ہے۔ مزید برآں ترسیلات زر کی مسلسل آمد نے پاکستانی روپے کے استحکام میں کردار ادا کیا ہے جس سے مارکیٹ میں تمام ادائیگیوں کے دباؤ کو اُبھرنے سے روک دیا گیا ہے۔

تاہم ایسا وقت آئے گا جب یہ عوامل اپنے حفاظتی اثرات کھو دیں گے۔ جیسے ہی اے ڈی آر ٹیکس سے بچنے کے لیے دی جانے والی زیادہ قرضہ سہولت ختم ہوگی اور تیل کی درآمدی دباؤ میں اضافہ ہوگا، برآمدی آمدنی میں کمی آ سکتی ہے کیونکہ کئی برآمد کنندگان نے پہلے ہی ادائیگیاں ایڈوانس بک کر رکھی ہوں گی۔ تاریخی طور پر برآمد کنندگان اس وقت موجودہ آمدنی کو روکنے کا رجحان رکھتے ہیں جب وہ کرنسی کی قدر میں کمی کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

خزانہ کے کچھ حکام خوش فہمی کا شکار ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ رمضان اور عید کے دوران مارچ اور اپریل میں ترسیلات زر کی آمد میں اضافہ ہوگا۔ نتیجتاً بیشتر حکام جون سے پہلے کرنسی کی قدر میں کمی کی توقع نہیں رکھتے۔ تاہم اس وقت تک گزشتہ چھ ماہ میں مالیاتی پالیسی میں نرمی کے اثرات درآمدات میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہو سکتے ہیں اور ماہانہ اوسط درآمدات 5.5 ارب ڈالر کے قریب پہنچنے کا امکان ہے۔

ایس بی پی کو اس وقت کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ اگرچہ مرکزی بینک کے پاس بینکوں سے زیادہ جامع معلومات ہو سکتی ہیں لیکن اس کے حکام میڈیا کے ساتھ کھل کر معلومات شیئر کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ محکمہ خزانہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ توجہ کرنسی پر ہونی چاہیے کیونکہ یہی مہنگائی میں اضافے کا سبب ہوتی ہے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کو محتاط مالیاتی پالیسی اپنانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی شرح سود میں کمی سست ہونے اور ڈالر انڈیکس میں اضافے کے پیش نظر محتاط انداز ضروری ہے۔

Comments

200 حروف