نیپرا کی تازہ ترین رپورٹ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی اصل تصویر پیش کرتی ہے: نااہلی کا ایک سرکس۔ جون 2024 تک نصب شدہ صلاحیت 45,000 میگاواٹ سے تجاوز کر چکی ہے، لیکن قابل بھروسہ اور سستی بجلی اب بھی خواب ہی ہے۔

بجلی کی 82 فیصد سے زائد لاگت پیداوار پر خرچ ہوتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ پیداواری صلاحیت ضرورت سے زیادہ ہے۔ پلانٹس یا تو بیکار کھڑے ہیں یا جزوی لوڈ پر چل رہے ہیں کیونکہ طلب کی پیشگوئی کو نظر انداز کیا گیا۔انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو پیداوار کے بجائے دستیابی کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے۔ عوامی پلانٹس؟ پرانے اور غیر مؤثر، لیکن پھر بھی دستیابی کی ادائیگی وصول کر رہے ہیں۔

تھرمل پاور اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن یہ نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ نجی پلانٹس اقتصادی میرٹ آرڈر (ای ایم او) کی وجہ سے بیکار کھڑے ہیں۔ سرکاری پلانٹس اپنی عمر پوری کر چکے ہیں لیکن اب بھی فعال ہیں۔ گڈو پاور پلانٹ، جسے مؤثر سمجھا جاتا ہے، اوپن سائیکل موڈ میں چلتا ہے۔ یہ نہ صرف ایندھن بلکہ عوام کے صبر کو بھی ضائع کر رہا ہے۔ درآمد شدہ ایندھن جیسے آر ایل این جی اور ایچ ایس ڈی لاگت اور غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کرتے ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے ذرائع نصب شدہ صلاحیت کا 30 فیصد ہیں، لیکن مسئلہ وہی پرانا ہے: غیر مستقل پیداوار۔ ہوا اور شمسی توانائی موسم پر منحصر ہیں۔ ٹرانسمیشن میں رکاوٹیں صورتحال کو مزید خراب کرتی ہیں۔ زیادہ پیداوار کے دوران بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ بیٹری اسٹوریج ممکنہ حل ہو سکتا ہے، لیکن اس کی تجارتی افادیت ابھی تک محدود ہے۔

جغرافیہ بھی ایک چیلنج ہے۔ سستے اور مؤثر پلانٹس جنوب میں ہیں، جبکہ طلب کے مراکز شمال میں۔ ٹرانسمیشن کا نظام مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے۔ طلب کے مراکز کے قریب مہنگے پلانٹس خلا کو پر کرتے ہیں، جس سے ٹیرف میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کہانی ہر سال دہرائی جاتی ہے، اور ٹرانسمیشن سسٹم پر سرمایہ کاری ہمیشہ ضرورت سے کم رہتی ہے۔

ٹرانسمیشن کے شعبے کو ایک دہائی تک نظرانداز کرنا تباہ کن ثابت ہوا۔ پیداواری صلاحیت میں توسیع ہوئی، لیکن ٹرانسمیشن کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ صورتحال اور خراب ہے۔ جی ای این سی اوز کے تحت سرکاری پلانٹس پرانے دور کی نشانی ہیں۔ یہ پلانٹس نہ صرف غیر مؤثر اور ناکارہ ہیں بلکہ ان کی دیکھ بھال بھی ناقص ہے۔ یہ پلانٹس دستیابی کی ادائیگی پر چلتے ہیں، اور صارفین ایسی بجلی کے لیے ادائیگی کرتے ہیں جو پیدا ہی نہیں کی جاتی۔

اگرچہ پیداواری مکس ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے، لیکن عالمی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے یہ شعبہ مسلسل دباؤ میں رہتا ہے۔ دوسری طرف، تھر کول اور جوہری توانائی استحکام اور کم لاگت فراہم کر سکتے ہیں، لیکن عملی خامیوں کی وجہ سے ان کا مکمل فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔

قابل تجدید توانائی نجات دہندہ ہو سکتی ہے، لیکن اسے گرڈ کے مسائل نے جکڑ رکھا ہے۔ شمسی اور ہوا کے فارموں کو بجلی کی منتقلی کے مسائل کا سامنا ہے۔ ٹرانسمیشن لائنیں دور دراز کے مقامات سے طلب کے مراکز تک بجلی پہنچانے سے قاصر ہیں۔ زیادہ پیداوار کے دوران بجلی بے کار پڑی رہتی ہے۔

اقتصادی میرٹ آرڈر (ای ایم او) کا مقصد سستی بجلی کو ترجیح دینا ہے، لیکن اس کے انحرافات نے مالی سال 24-2023 میں اربوں کا نقصان پہنچایا۔ پلانٹس کو غیر مؤثر طریقے سے چلایا گیا، گیس کی فراہمی غلط انداز میں کی گئی، اور لائن پیک کی حدود نے انتشار میں مزید اضافہ کیا۔

حل واضح ہیں۔ گرڈ کو جدید بنائیں۔ پرانے پلانٹس کو بند کریں۔ مؤثر ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کریں۔ طلب کی پیشگوئی حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے۔ غیر استعمال شدہ صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے گرڈ کی طلب کو بڑھایا جائے۔ بصورت دیگر، ٹیرف بڑھتے رہیں گے اور اس شعبے کی نااہلیاں صارفین کو پریشان کرتی رہیں گی۔

پاکستان کا توانائی کا شعبہ ممکنات کی کمی کا شکار نہیں ہے۔ یہ عملی اقدامات کی کمی کا شکار ہے۔ ٹرانسمیشن اپ گریڈ، قابل تجدید توانائی کا انضمام، اور ایندھن کا مؤثر انتظام کوئی عیاشی نہیں بلکہ ضرورت ہیں۔ جب تک اصلاحات عارضی اقدامات کی جگہ نہیں لیں گی، یہ شعبہ تضاد کی علامت بنا رہے گا۔

Comments

200 حروف