پاکستان کا اقتصادی استحکام کی طرف سفر مختلف پہلوؤں میں تبدیلیوں پر انحصار کرتا ہے جن میں سے ایک غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) ہے۔ محض کسی بھی قسم کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے بجائے اس کا رخ ایسی سرمایہ کاری کی طرف موڑنا جو کارکردگی پر مرکوز ہو اور برآمدات کو فروغ دیتی ہو، جو طویل مدتی ترقی کے امکانات فراہم کرے، ملک کو ایک مضبوط اور لچکدار معیشت بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ اس سے درآمدات پر انحصار کم ہوگا، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اور مقامی صنعتوں کو عالمی ویلیو چینز میں شامل کر کے پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں گے۔ پاکستان بزنس کونسل (پی سی بی) اس بات پر توجہ دیتا ہے اور ایک جامع رہنمائی فراہم کرتا ہے جو بتاتا ہے کہ پاکستان اپنی غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسیوں کو کس طرح اسٹریٹجک انداز میں ڈھال سکتا ہے تاکہ پائیدار فوائد حاصل کیے جا سکیں۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کنزیومر مارکیٹ میں داخل ہونے اور خدمت کرنے کی خواہش مارکیٹ کو درکار غیر ملکی سرمایہ کاری کو جنم دیتی ہے اور یہ پاکستان میں ایف ڈی آئی کی غالب نوعیت ہے۔ اس قسم کی ایف ڈی آئی عام طور پر بڑے یا بڑھتے ہوئے صارفین کی بنیاد والے ممالک کو ہدف رکھتی ہے جس سے غیر ملکی فرموں کو مقامی طلب کو پورا کرنے کے لئے مقامی طور پر سامان یا خدمات تیار کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ اگرچہ اس طرح کی ایف ڈی آئی براہ راست روزگار، تربیت اور ترقی، ٹیکنالوجی کی منتقلی، سی ایس آر اور ٹیکسوں کے لئے ایک اہم محرک رہی ہے لیکن ایف ڈی آئی پر ملک کے حد سے زیادہ انحصار نے طویل مدتی معاشی فوائد کو محدود کردیا ہے جس کی بنیادی وجہ منافع کی واپسی کے ذریعے سرمائے کا اخراج ہے۔

پاکستان میں ”کارکردگی پر مبنی غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری“ سے متعلق رپورٹ اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ یہ حکمت عملی کس طرح پاکستان کی برآمدات کی ترقی اور وسیع اقتصادی فوائد کی صلاحیت کو محدود کر رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ تجزیہ کیا گیا ہے کہ کس طرح اس حکمتِ عملی نے منافع کی واپسی کے ذریعے بڑے پیمانے پر سرمایے کے اخراج کو جنم دیا ہے، اور اس کا موازنہ کارکردگی پر مبنی غیر ملکی سرمایہ کاری سے کیا گیا ہے جو پاکستان کو عالمی ویلیو چینز میں شامل کر کے برآمدی صلاحیت کو بڑھا سکتی ہے۔ رپورٹ کا اہم پیغام یہ ہے کہ سرمایہ کاری کی مقدار کے بجائے اس کی معیار پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ پائیدار ترقی حاصل کی جا سکے۔

رپورٹ میں بھارت، ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی ایف ڈی آئی پالیسیوں کا تقابلی تجزیہ پاکستان کے لیے ایک معیار پیش کرتا ہے۔ اس میں ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی ممالک سے سیکھنے پر زور دیا گیا ہے جنہوں نے برآمدات پر مبنی ایف ڈی آئی کو مؤثر طریقے سے راغب کرنے کے لئے اصلاحات نافذ کی ہیں۔ مثال کے طور پر ویتنام کی ”ڈوئی موئی“ اصلاحات کی کامیابی اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں بنگلہ دیش کی مخصوص مراعات پاکستان کو عملی نمونے فراہم کرتی ہیں۔

پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم بہت کم ہے اور اس کا کوئی ہدف نہیں ہے۔ پی بی سی کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ برآمدات کو فروغ دینے اور پاکستان کو عالمی ویلیو چین میں ضم کرنے کے لیے مینوفیکچرنگ، آئی ٹی اور زراعت جیسے شعبوں کو ہدف بنایا جائے۔

مطالعے کی اہم سفارشات میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لئے اصلاحات شامل ہیں ، جیسے لیبر مارکیٹ میں بہتری ، ضابطے آسان بنانا، اور اعلی معیار کی ایف ڈی آئی کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ، رپورٹ پالیسی میں تسلسل اور حکومتی نگرانی کی اہمیت پر بھی زور دیتی ہے تاکہ ایک مستحکم اور سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ ماحول بنایا جا سکے۔

اس کے علاوہ رپورٹ یہ تجویز کرتی ہے کہ پاکستان کی مسابقت کو بڑھانے کے لیے تجارتی معاہدوں کی دوبارہ بات چیت کی جائے، تاکہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے لیے بہتر مارکیٹ تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ موجودہ فری ٹریڈ ایگریمنٹس (ایف ٹی ایز، خاص طور پر چین کے ساتھ، میں ان شقوں کی کمی ہے جس سے پاکستان کی برآمدی صلاحیت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ تجارتی معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرکے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے لیے وسیع تر مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنا پاکستان کے لیے برآمدات پر مبنی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری اور تجارتی پالیسی کے درمیان اسٹریٹجک ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔

Comments

200 حروف