اکتوبر میں سیمنٹ کی ترسیل کے اعداد و شمار (تقریبا 4.36 ملین ٹن) توقع سے کہیں زیادہ ہیں یعنی اس میں سالانہ بنیادوں پر تقریباً 9 فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں بڑا حصہ برآمدات کا ہے۔ تاہم مقامی سطح پر ترسیل میں کمی آئی ہے۔ مجموعی طور پر بھی چار ماہ میں مالی سال 25 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کم فروخت ریکارڈ کی جا رہی ہے اور اس میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے باوجود افق پر ایک سست بحالی ہوسکتی ہے کیونکہ 3 ملین کی ترسیل میں بہت زیادہ (14 فیصد) کمی واقع ہوئی ہے۔ اکتوبر ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس مہینے کے دوران مالی سال 25 کے 3 ماہ (3.4 ملین ٹن) اور 3 ماہ مالی سال 24 (3.96 ملین ٹن) دونوں میں اوسط ماہانہ فروخت کے مقابلے میں زیادہ فروخت ریکارڈ کی۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ برآمدات اس وقت مرکزی کردار ادا کررہی ہے جبکہ مقامی طلب میں بہت کم اضافہ ہوا ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی بہتری نہیں ہورہی۔ میکرو اکنامک ماحول بہتر ہوا ہے جس کا اظہار افراط زر کے کم ہونے اور مرکزی بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 15 فیصد تک کم کرنے کے فیصلے سے ہوتا ہے جس میں 250 بیسس پوائنٹس کی نمایاں کمی کی گئی ہے۔ اپنے عروج پر پالیسی ریٹ 22 فیصد تک پہنچ چکا تھا جس میں اس کے بعد سے کمی آ رہی ہے۔ اس کے باوجود، یہ واضح ہے کہ نمایاں ترقی کے لیے مزید وقت درکار ہوگا کیونکہ اقتصادی سست روی نے کھپت کے پیٹرنز کو خاصی حد تک تبدیل کر دیا ہے اور کم از کم پچھلے دو سالوں سے خریداری کے فیصلے تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔ یہی ہمیں تعمیراتی صنعت اور اس کے تحت تعمیراتی مواد تیار کرنے والی کمپنیوں کی جانب لے آتا ہے۔ سیمنٹ، جو تعمیرات میں استعمال ہونے والا ایک اہم جزو ہے، صرف اس وقت طلب میں زبردست اضافہ دیکھے گا جب عوامی اور نجی شعبے دونوں خرچ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں سست روی کو دوبارہ بحال ہونا پڑے گا، جو کہ—مقامی ہاؤسنگ فنانس اور مارگیج مارکیٹ کی غیر موجودگی میں—بڑی حد تک انفرادی پراپرٹی مالکان، تعمیرات کرنے والوں، ڈویلپرز اور ریئل اسٹیٹ سرمایہ کاروں اور ان کے خرچ کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ درمیانہ طبقہ اور یہاں تک کہ اعلیٰ آمدنی والے افراد بھی ان منصوبوں میں اپنی بچت کو لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں جہاں واضح منافع یا وقت پر تکمیل کی ضمانت نہ ہو۔ عمران خان کی حکومت کے دوران جو عروج تعمیراتی صنعت میں آیا تھا، وہ تقریباً ختم ہو چکا ہے یعنی یہ عروج اب نظر نہیں آرہا اور صارفین اور سرمایہ کار دونوں صحیح وقت کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ سرمایہ کاری کر سکیں۔ حالانکہ افراط زر کم ہوا ہے اور تعمیراتی مواد کی قیمتیں بھی پہلے جیسی مہنگی نہیں رہیں، صارفین اب بھی بنیادی اشیا کی بڑھتی لاگت کے اثرات سے متاثر ہیں جو بڑی خریداریوں پر بھاری اثر ڈالتی ہے۔

دریں اثنا، حکومت بنیادی ڈھانچے اور ترقی پر بھاری خرچ کر رہی ہے اور موجودہ طویل مدتی منصوبوں کے لئے نئی فنڈنگ کی منظوری دیتی ہے، جن میں سے بہت سے ابھی بھی جاری ہیں۔ تاہم مالی رکاوٹوں اور لاگت میں اضافے کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے۔ مالی حد تقریبا ہمیشہ منصوبے کی فراہمی کو متاثر کرتی ہیں جس کی پر نظر ثانی اور اس کے حجم میں کمی کا نکتہ نظر اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بلا شک و شبہ، شہری اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں: مختلف سڑکوں اور نقل و حمل کے انفراسٹرکچر کے منصوبے جو پہلے مکمل ہونے والے تھے اب تک تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اکتوبر میں سیمنٹ کی ترسیلات کی فروخت ایک مثبت پیشرفت ہے جس کا بیشتر حصہ برآمدات سے آیا ہے، تاہم یہ اب تک اس مرحلے سے دور ہے جس کا انحصار وسیع تر معاشی بحالی پر ہے اور اس کیلئے شاید حکومت خود بھی تیار نہیں۔

Comments

200 حروف