پاکستان اسٹیٹ بینک میں کم شرح سود کے حامی افراد کا غلبہ ہے۔ شرح سود میں 250 بیسس پوائنٹس کی کمی کا اعلان کیا گیا ہے جو مارکیٹ کی توقعات سے کچھ زیادہ ہے۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی میں شامل کچھ غیر ملکی ماہرین کی جانب سے 150 سے 200 بیسس پوائنٹس کم کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں تاہم یہ کمی 250 بیسس پوائنٹس کی گئی جس کے بعد شرح 15 فیصد ہو گئی ہے۔ مزید کمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
معاشی اشاریے خاص طور پر قرضوں اور بیرونی ذمہ داریوں کے حوالے سے بہتر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران سرکاری قرضوں میں قدرے کمی آئی ہے جس میں اب کم لاگت والے، طویل مدتی کثیر الجہتی قرضوں کا حصہ زیادہ ہے جبکہ مارکیٹ پر مبنی قرضوں میں کمی آئی ہے۔ کم بیرونی فنانسنگ کی ضرورت بھی کرنسی کو مستحکم کرنے میں مدد کر رہی ہے۔
توقع سے کم افراط زر اور مالی استحکام کے دوران مستحکم کرنسی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں شرح میں نرمی کا عمل تیز ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کوئی بڑا خطرہ اجاگر نہیں کیا گیا جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نرمی کا عمل جاری رہ سکتا ہے۔ تاہم پیر کو کی جانے والی بڑی کمی کے بعد، جو پالیسی ریٹ کو صرف چند ماہ پہلے 22 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد پر لے آئی ہے، مستقبل میں شرحوں میں کمی چھوٹی ہوگی—دسمبر میں تقریباً 100 سے 150 بیسس پوائنٹس کی کمی متوقع ہے اور اس کے بعد بھی اسی نوعیت کی کمی کی توقع کی جا رہی ہے جب تک کہ اسٹیٹ بینک کو شرح مناسب نہ لگے۔
افراط زر کے بارے میں اسٹیٹ بینک کا مثبت نقطہ نظر جائز ہے کیونکہ اب افراط زر 11.5 سے 13.5 فیصد کے پہلے کے تخمینہ سے نمایاں طور پر کم ہونے کی توقع ہے۔ مزید برآں بیرونی کھاتوں کی بہتری اور کرنسی کے مستحکم ہونے کے بارے میں اسٹیٹ بینک کا مؤقف صحیح معلوم ہوتا ہے؛ مرکزی بینک ڈالرز خرید رہا ہے جبکہ نجی شعبے کا رحجان بھی روپیے کی طرف بڑھ رہا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بینکوں کے پاس موجود غیر ملکی ذخائر میں کمی آئی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ این ایف اے اور این ڈی اے کے تناسب میں بہتری اور فارورڈ/سویپ ذمہ داریوں میں کمی اس منظرنامے کی مزید حمایت کرتی ہے۔ تجارتی خسارہ جی ڈی پی کا ایک فیصد سے کم رہنے کا تخمینہ ہے جس سے بیرونی فنانسنگ کے قابل انتظام ہونے ہونے کا کافی امکان ہے۔
تاہم تیزی سے ترقی کی بحالی اور نجی قرضوں میں اضافے پر اسٹیٹ بینک کا اعتماد قدرے غلط ہوسکتا ہے۔ معاشی نقطہ نظر اب بھی چیلنجنگ ہے اور ترقی زیادہ تیزی سے نہیں ہورہی۔ حالیہ نجی قرض میں اضافہ بینکوں کی جانب سے بنیادی طور پر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ لو ایڈوانس-ٹو-ڈپازٹ تناسب (اے ڈی آر) سے منسلک اضافی ٹیکسوں سے بچا جا سکے۔ اس نے بعض خرابیاں پیدا کی ہیں جو ممکنہ طور پر 2025 کے شروع تک معمول پر آ جائیں گے۔
اسٹیٹ بینک کے اندر درآمدات میں اضافے کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کے قرضوں پر 30 لاکھ روپے کی حد برقرار ہے۔ یہ ایک ایسی خرابی ہے جسے برقرار رکھنے کا انتخاب اسٹیٹ بینک نے کیا ہے۔ پالیسی ریٹ میں نرمی کی جا رہی ہے کیونکہ مارکیٹ کی پیداوار میں تیزی سے کمی آئی ہے ، جس کی وجہ سے پالیسی ریٹ غیر موثر ہوسکتا تھا اور بینکوں کو او ایم او کے ذریعے حکومت کو قرض دینے میں عدم دلچسپی ہوتی جس سے قلیل مدتی منفی رحجان پیدا ہوسکتا تھا۔ 250 بی پی ایس کٹوتی کا مقصد اس فرق کو پر کرنا ہے۔
درآمدات کی طلب اور ذخائر کی بڑھوتری پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے تقریباً 800 ملین ڈالر کی ٹی بلز کی سرمایہ کاری فی الحال ذخائر کی حمایت کر رہی ہ، اور اسٹیٹ بینک اس رقم میں اضافے کی کوشش کر سکتا ہے۔ یہ آمدن مثبت حقیقی شرح سود کی وجہ سے آ رہی ہیں اور شرحوں میں تیز نرمی سے یہ آمدن کم ہو سکتی ہے جس سے کرنسی پر دباؤ پڑ سکتا ہے—یہ وہ نتیجہ ہے جس سے اسٹیٹ بینک بچنا چاہتا ہے۔
مزید برآں فارن ایکسچینج فنانسنگ لون میں تیزی آئی ہے، اور شرح سود میں حد سے زیادہ کمی کرنسی پر غیر ضروری دباؤ ڈال سکتی ہے۔ مثبت حقیقی شرحوں کی بدولت خوشگوار بہاؤ نے ایم 2 پر مثبت اثر ڈالا ہے، جس سے این ایف اے کی طرف منتقل ہونے کا رجحان نظر آ رہا ہے۔ یہ رجحان افراط زر کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جو اسٹیٹ بینک کے مزید نرمی کے اعتماد کو سپورٹ کرتا ہے۔ تاہم، احتیاط ضروری ہے۔
ماضی کے دو سالوں کی اقتصادی سمت کو مدنظر رکھنا اور استحکام کی کوششوں کو جڑ پکڑنے کا موقع دینا ضروری ہے۔ آئندہ سال مالیاتی استحکام جاری رہنا مشکل ہو سکتا ہے، اور مالی سال 26 میں اچانک ترقی کی رفتار میں اضافہ اس پیشرفت کو الٹ سکتا ہے جو اب تک حاصل ہوئی ہے۔ لہٰذا، شرحوں میں نرمی احتیاط کے ساتھ کی جانی چاہیے۔
Comments