جولائی 2024 کے دوران چینی کی برآمدات میں سست روی کے بعد پالیسی ساز ماضی کی غلطیوں کو دہرانے لگے ہیں۔ رواں ہفتے کے اوائل میں اس اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) کی سفارشات کی بنیاد پر ملوں کی جانب سے چینی کی برآمد پر شرائط میں نرمی کی ہے۔

 ۔
۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آف سیزن (جب کوئی پیداوار نہیں ہوتی) کے دوران چینی کے برآمدی کوٹے میں توسیع اور اضافہ ایک غلط قدم ہے، کیونکہ اس سے نادانستہ طور پر مقامی مارکیٹ کی قیمتوں پر دباؤ پڑے گا۔ یہ درست ہے کہ شوگر انڈسٹری جو اکتوبر 2023 سے برآمدی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کر رہی تھی، وفاقی حکومت کی جانب سے فیصلہ سازی میں تاخیر کا ذمہ دار نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی شوگر ٹریڈ پالیسی کا واضح مقصد صرف مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں استحکام برقرار رکھنا ہے۔ آف سیزن کے دوران برآمدی کوٹے میں اضافہ یقینی طور پر مقامی مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا، جو چینی کی برآمد پر ریاست کے پالیسی مقاصد کی ناکامی کو یقینی بناتا ہے۔

 ۔
۔

کچھ حد تک، جاری مارکیٹنگ سال کے دوران چینی کی قیمتوں میں سست رفتار اضافے نے پالیسی سازوں کے لئے سکون کا کام کیا ہے، جو یہ سوچ کر غلطی کر سکتے ہیں کہ چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے تاخیر ی فیصلے سے وہ سال کے آخر میں پریشانی میں نہیں پڑیں گے۔ فیصلہ ساز یہ بھول جاتے ہیں کہ رواں سیزن کے دوران مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں استحکام گزشتہ سال مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کی وجہ سے آیا ہے، جس کا اختتام گزشتہ سال کے مقابلے میں مقامی مارکیٹ کی قیمتوں میں 45 فیصد اضافے کے ساتھ ہوا۔

 ۔
۔

مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ اس وقت چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کئی عوام کے باعث ہوا تھا،ن میں سب سے اہم عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا دہائی کی بلند سطح 750 ڈالر فی ٹن تک پہنچنا تھا، جس کے ساتھ کرنسی ایکسچینج ریٹ کا بڑھ جانا بھی شامل تھا۔ یہ 2022 کی مون سون سیلاب کی وجہ سے خام مال کی فصلوں کے نقصان اور صوبائی حکومت کی جانب سے انتخابی سال کی وجہ سے گنے کی سپورٹ قیمتوں میں اضافے کے بعد ہوا تھا۔ اگرچہ عالمی مارکیٹ کی قیمتیں اور ایکسچینج ریٹ بعد میں کم ہوئے، لیکن مقامی مارکیٹ کی قیمتیں اپنے عروج پر برقرار رہیں اور درحقیقت اب مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

 ۔
۔

اس بات کو دہرائیے کہ ناکامی چینی کی صنعت کی نہیں ہے، جو کہ اکتوبر 2023 سے حکومت کو برآمدات کی اجازت دینے کی مشورہ دے رہی تھی، جب عالمی مارکیٹ کی قیمتیں تاریخی سطح پر تھیں، اور برآمدات کی وصولیاں (اور منافع) شاندار ہوتیں۔ افسوس، مقامی قیمتوں کے استحکام اور آنے والے عام انتخابات کے خوف کی وجہ سے اس فیصلے کو تقریباً 8 ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا، جس وقت تک عالمی مارکیٹ کی قیمتیں تقریباً 25 فیصد تک کم ہو گئی تھیں۔

 ۔
۔

جون 2024 میں جب ایکسپورٹ کوٹہ کی منظوری دی گئی تو یہ سخت شرائط کے تحت تھا جیسے ایکسپورٹ کو ریٹیل مارکیٹ پرائس مانیٹرنگ سے جوڑنا، برآمدی ادائیگیوں کی 100 فیصد ایڈوانس وصولی اور برآمدی اجازت کو کاشتکاروں کے واجبات کی ادائیگی سے جوڑنا۔ متوقع طور پر، ان سخت شرائط کے نتیجے میں 45 دنوں میں برآمدی ادائیگیوں میں صرف 50 ملین ڈالر کی وصولی ہوئی، جبکہ متوقع برآمدات 90 ملین ڈالر (اوسط برآمدی قیمت 600 ڈالر فی میٹرک ٹن کے حساب سے) تھیں۔

 ۔
۔

اب، ان شرائط کو شگر ایڈوائزری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نرم کیا جا رہا ہے، جو کہ ایک ریگولیٹری کمیٹی ہے جسے صنعت کے لابی کے نمائندے کے طور پر منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ اگر اس سے خوردہ مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے – جو کہ یقینی طور پر ہوگا – تو حکومت پر عام صارفین کی قیمت پر صنعت کی حمایت کرنے کا الزام لگایا جائے گا، جو کہ حالیہ سیاسی تاریخ میں ن لیگ اور پی پی پی نے بہت بار بھگتا ہے۔

 ۔
۔

اگر عقل مندی کو غالب رکھنا ہے، اور پاکستان کو میڈیا کی سرخیوں کے لامتناہی چکر سے بچنا ہے جو سیاسی جماعتوں کو شوگر کے تاجروں کے ذریعہ چلانے کا الزام لگاتے ہیں تو وفاقی حکومت کو چینی کی برآمد پالیسی میں تبدیلی کرنی ہوگی، اور اسے مقامی قیمتوں کے استحکام سے بالکل الگ کر دینا چاہیے۔ پاکستان کو برآمدات کی ضرورت ہے، اور ان برآمدات سے مقامی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔

 ۔
۔

اسے تسلیم کریں، نہ کہ وقت پر فیصلے نہ کرنے پر بیوروکریٹس کو معطل کریں، بار بار۔ کیا سیاست دان بار بار ایک ہی قسم کی کیچڑ میں قدم رکھتے نہیں تھکتے ؟

Comments

200 حروف