مارکیٹ کے بنیادی اصولوں اور جغرافیائی سیاسی خطرات کے درمیان بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والی کشمکش گزشتہ ہفتے ایک اور نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ تیل کی قیمتیں 2024 کے آغاز کے بعد سے کم ترین سطح پر آ چکی ہیں، لیکن کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے منفی رحجان سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے صرف 3 دن کا وقت لگا۔ حزب اللہ کے اسرائیل پر میزائل حملے نے جنگ کے خطرے کے امکان کو بنیادی عوامل پر غالب کر دیا۔

روس اور یوکرین کے درمیان تنازعے اور مشرق وسطیٰ میں جاری بحران کے بعد سپلائی میں خلل کے خدشات کبھی حقیقی شکل اختیار نہیں کر پائے۔ بحیرہ احمر کے راستوں کی صورتِ حال بگڑنے پر سمندری جہازوں نے طویل راستے اختیار کیے، مگر مارکیٹ میں تیل کافی مقدار میں موجود رہا اور کوئی بڑی مقدار مارکیٹ سے باہر نہیں گئی۔

اب یہ صورتحال مکمل طور پر بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ لیبیا مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا پہلا شکار بن رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اہم تیل پیدا کرنے والے ملک سے آنے والی خبروں کے مطابق لیبیا کی روزانہ 1.17 ملین بیرل تیل کی پیداوار تقریباً مکمل طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔ مشرقی لیبیا کی آئل فیلڈز داخلی سیاسی تنازعات کے باعث تاحکم ثانی بند رہنے کی توقع ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کے بحران کے آغاز کے بعد سپلائی کو پہنچنے والا پہلا اہم دھچکا ہے۔

لیبیا کو پہلے ہی اس ماہ اپنی کچھ بڑے آئل فیلڈز میں تعطل کے بعد پیداوار میں کمی کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ملک کی زیادہ تر برآمدات مشرق میں بندرگاہوں کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں جو بڑے پیمانے پر یورپ میں مارکیٹوں کو سپلائی کی جاتی ہیں۔ سٹی گروپ انکارپوریٹڈ کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ رسد میں کمی عارضی طور پر برینٹ کو 80 ڈالر فی بیرل کے درمیان میں دھکیل دے گی۔ ایران کا معاملہ ابھی واضح ہونا باقی ہے، کیونکہ اس نے اب تک اپنی سرزمین پر حماس کے رہنما کے قتل کے اپنے ”انتقام کے وعدے“ پر عمل نہیں کیا ہے۔

لیبیا کی رسد میں خلل کے اعلان سے پہلے، مارکیٹوں نے اگلے مہینے کیلئے امریکی فیڈرل ریزرو کی شرح سود کی خبر پر پہلے ہی تیزی دکھانا شروع کردی تھی- جہاں مالیاتی سائیکل کا پلٹنا ابھی یقینی نہیں ہے۔اگرچہ اس کا بہت زیادہ اثر پہلے سے قیمتوں میں شامل ہو چکا ہے لیکن شرح میں کمی کی شدت بین الاقوامی اشیاء کی قیمتوں پر اثر ڈال سکتی ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں دنیا بھر کی مارکیٹوں کو ہلا کر رکھ دینے والے ملازمتوں کے پریشان کن اعداد و شمار کے بعد امریکی معیشت کے کساد میں داخل ہونے کے بارے میں خدشات میں کمی آئی ہے۔

دوسری طرف بنیادی عوامل طویل مدت کے لیے نسبتا متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ 2025 میں طلب میں سست روی کا اندازہ اب تاریخی طور پر زیادہ پرامید مبصرین سے لگایا جا رہا ہے۔ اوپیک نے بھی 2025 کے لیے طلب بڑھانے کی پیش گوئیوں میں تبدیلی کی ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ایسے ممالک جو اوپیک میں شامل نہیں ہیں اپنی پیداوار بڑھا رہے ہیں اور اوپیک پلس گروپ کی طرف سے کسی بھی اعلانیہ یا جبری طور پر سپلائی میں خلل کو دور کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اوپیک نے خود پیداوار میں کمی کے مرحلہ وار خاتمے کو واپس لینے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ چین کا طلب کا معاملہ حیرت انگیز رہا ہے اور کم از کم اگلے دو سہ ماہیوں کے لیے بہتر ہونے کی امید نہیں ہے۔ قریبی مدت کے جھٹکے تیل کی قیمتوں کو بلند رکھ سکتے ہیں، لیکن بنیادی عوامل آخرکار غالب آئیں گے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 2025 میں مارکیٹ میں زیادہ سپلائی آنے والی ہے۔

Comments

200 حروف