آئی ایم ایف پروگرام کی بورڈ کی جانب سے منظوری میں ایک بار پھر تاخیر کا سامنا ہے۔ جب کہ اسٹاف سطح پر معاہدہ جلدی طے پا گیا تھا اور آئی ایم ایف نے حکومت کی درخواستوں کو تسلیم کیا، لیکن بورڈ کی منظوری اتنی آسان نہیں رہی۔ ابتدائی طور پر، وزیر خزانہ نے اعتماد ظاہر کیا کہ بورڈ کی میٹنگ اگست میں ہوگی۔ جب کوئی میٹنگ شیڈول نہیں ہوئی تو انہوں نے امید کے ساتھ یہ ٹائم لائن ستمبر کے پہلے 15 دن تک بڑھا دی۔
تاہم، اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کا معاملہ آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ ایجنڈے میں شامل ہونا ستمبر کے آخر تک مؤخر ہو سکتا ہے، اور مزید تاخیر کا امکان ہے۔ اہم مسئلہ ابھی تک حل نہ ہونے والا مجموعی مالیاتی فرق ہے۔ اب تک، حکومت نے صرف 1.2 بلین ڈالر کی کمٹمنٹس حاصل کی ہیں، جبکہ 3.8 بلین ڈالر کی رقم باقی ہے۔ اس میں پروگرام کے پہلے 12 مہینوں کے لیے 800 ملین ڈالر کی مضبوط کمٹمنٹ اور مالی سال26 اور مالی سال27 کے لیے اضافی 3 بلین ڈالر کی آسان کمٹمنٹس شامل ہیں۔
یہ تاخیر مختلف شعبوں میں بے چینی پیدا کر رہی ہے۔ بینک ٹریژری ڈیسکوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کار حکومتی مارکیٹ پر مبنی قرضے سے اپنے ایکسپوژر کو کم کر رہے ہیں، جس سے ممکنہ تاخیر کا اندازہ لگایا جا رہا ہے جو کہ مقامی مارکیٹوں نے ابھی تک ظاہر نہیں کیا ہے۔ طویل انتظار وزیر خزانہ کی جانب سے بتائے گئے میکرو اکنامک استحکام پر شکوک پیدا کر رہا ہے، جس سے معاشی ترقی کی قابل عمل ہونے کے بارے میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
صورت حال کو انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے مسئلے پر چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ وزیر خزانہ کے حالیہ دورہ چین کے دوران، آئی پی پیز کے قرضوں کی ری پروفائلنگ پر بات چیت اس وقت رک گئی جب چینی حکام نے حکومت کے طویل مدتی منصوبے پر سوالات اٹھائے، اگر پانچ سالہ وقفے کی منظوری دی جاتی تو۔ فنانس ٹیم کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا، جس سے بات چیت رک گئی۔ اس نے ریاستی عہدیداروں کے درمیان حکومت کی کارکردگی اور اس کی فنانس ٹیم کی حکمت عملی کے بارے میں تشویش پیدا کی ہے۔ چینی حکام واضح، پائیدار راستہ کے بغیر مزید خطرات مول لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
نتیجے کے طور پر، حکومت اب اضافی مدد کے لیے جی سی سی ممالک کا رخ کر رہی ہے۔ سعودی عرب نے 1.2 بلین ڈالر کی تیل کی سہولت دینے کا وعدہ کیا ہے، لیکن یہ ضرورت کے مطابق کافی نہیں ہے۔ اگلا ہدف متحدہ عرب امارات کے کمرشل بینکوں سے فنانسنگ حاصل کرنا ہے، جو کوئی کمٹمنٹ کرنے سے پہلے آئی ایم ایف کی منظوری پر اصرار کر رہے ہیں۔ تاہم، آئی ایم ایف مالیاتی کمٹمنٹس کے ہونے تک رک گیا ہے، جس سے ایک فرسٹریٹنگ “ پہلے مرغی یا انڈا“ جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ کمرشل بینکوں کی جانب سے مانگے جانے والے بھاری سود کی شرحیں پہلے سے ہی بھاری قرض سروسنگ لاگتوں میں اضافہ کر رہی ہیں، جس سے بیرونی شعبے پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اس صورتحال سے آئی ایم ایف کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے نجی قرضوں کی آمد 8 ارب ڈالر اور اگلے سال 15 ارب ڈالر کے تخمینے پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ منظر نامے کو دیکھتے ہوئے، یہ مفروضے حد سے زیادہ پرامید نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر یہ تعطل برقرار رہا تو حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) صرف ضروری درآمدات کو ترجیح دیتے ہوئے 2023 کی محدود درآمدی پالیسیوں پر واپس آسکتے ہیں۔
یہ حالات نازک ہیں اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہر تاخیر نہ صرف اعتماد کو کمزور کررہی ہے بلکہ پاکستان کو درکار نازک معاشی استحکام کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے،جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔
Comments