پاکستان کی معیشت بین الاقوامی قرضے فراہم کرنے والے سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش بن رہی ہے۔ حکومتی ٹریژری بلز میں ایس سی آر اے کے تحت غیرملکیوں کی طرف سے کچھ رقوم بھیجی گئیں۔ یہ رقوم مارچ اور اپریل میں اب تک 110 ملین ڈالر رہی جبکہ رواں مالی سال میں 152 ملین ڈالر ہیں۔
ایک بینک کے ٹریژری ہیڈ کا اس حوالے سے پرجوش انداز میں کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمائے کی واپسی خوش آئند ہے، اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کار پاکستانی معشیت میں استحکام اور معاشی فائدہ دیکھ رہے ہیں اور دو سے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آنی چاہئے۔ تاہم مارکیٹ کے ایک اور حصے دار اس حوالے سے متذبذب دکھائی دیے کیوں کہ ان کے خیال میں یہ ایک مہنگا قرضہ ہے جہاں قرض لینے والوں کا کنٹرول کم ہوتا ہے۔
سرمائے پر بحث 2019-20 میں بھی اس طرح ہی تھی جب اس وقت کے اسٹیٹ بینک کے گورنر رضاباقر کرونا وبا کے سبب معاشی مشکلات پیدا ہونے سے قبل ٹریژری بلز میں 3 ارب ڈالر سرمایہ لانے میں کامیاب رہے۔ تاہم اب شاید سرمایہ کار وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور حکومت پاکستان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
اس وقت بلاشبہ سود کی شرح پرکشش ہے تاہم گزشتہ سال بھی ایسا ہی کچھ تھا، مثال کے طور گزشتہ برس اپریل میں پاکستانی کرنسی کی قدر ایک ڈالر کے مقابلے میں 280 روپے تھی اور سود کی شرح جولائی میں اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت اگر کسی نے ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کی ہوتی تو اس اعتبار سے ڈالر کی مد میں اسے 23-25 فیصد منافع حاصل ہوتا۔
تاہم کسی نے سرمایہ کاری کرنے کی ہمت نہیں کی۔ مقامی کرنسی کو لاحق خطرات مزید بڑھ گئے تھے جس کی وجہ سے سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے، تاہم گزشتہ سال کے برعکس اب شاید سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ کرنسی نہیں گرے گی اور شرح سود کم ہونے سے پہلے سرمایہ کاری کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔
نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان پیر کو کیا جارہا ہے۔مارکیٹ میں ایک ہی نظریہ غالب ہے کہ شرح سود میں کمی ہو رہی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ سرمائے پر منافع کی واپسی کب سے شروع ہوتی ہے۔ اگر غیرملکی سرمایہ کار پاکستانی کرنسی میں نسبتا استحکام دیکھ رہے ہیں تو یہ ان کیلئے ٹریژری بلوں میں سرمایہ کاری کا بہترین وقت ہے۔ اس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک بھی مانیٹری پالیسی میں نرمی لانے میں تاخیر کرسکتا ہے اور یہاں تک کہ اگر شرح سود میں کوئی کمی بھی کی جائے تو وہ بھی اعتدال کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ ۔
وزیر خزانہ بیرونی فنانسنگ میں اضافہ چاہتے ہیں اور یہ سرمائے کو راغب کرنے کا ایک راستہ ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کیوں کہ اسٹاک مارکیٹ میں بھی اب پیسہ آرہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کیلئے اہم بات زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا ہے، کیوں کہ ذخائر میں جتنا اضافہ ہوگا اتنا ہی معاشی استحکام آئے گا۔ جب تک ریٹنگز بہتر نہیں ہوجاتی اور حکومت طویل مدتی قرض کیلئے کیپٹل مارکیٹ سے (جیسے یورو بانڈز وغیرہ) رجوع نہیں کرلیتی، عارضی حل کے طور پر ہاٹ منی کی آمد میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
Comments
Comments are closed.