پاکستان، ایران کا سلامتی کونسل سے اسرائیل کیخلاف ایکشن کا مطالبہ

ایران اور پاکستان نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے جاری ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کا...
شائع April 24, 2024

ایران اور پاکستان نے بدھ کے روز ایک مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے غیر قانونی طور پر پڑوسی ممالک اور غیر ملکی سفارتی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ مشترکہ بیان، مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے دوران ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے تین روزہ دورے کے بعد جاری کیا گیا۔

گزشتہ جمعے کو ایرانی شہر اصفہان میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جس کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ یہ ایک اسرائیلی حملہ تھا۔ تاہم، تہران نے واقعے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کا جوابی کارروائی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

بیان کے مطابق پاکستان اور ایران نے پہلے سے غیر مستحکم خطے میں اسرائیلی فوج کے غیر ذمہ دارانہ عمل کو کشیدگی میں اضافے کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی حکومت کو خطے میں اس کی مہم جوئی ،پڑوسیوں پر بلا جواز حملوں اور غیر قانونی کارروائیوں سے روکنے کیلئے اقدامات کرے۔

دونوں مسلم پڑوسی ممالک ایران اور پاکستان اس سال غیرمعمولی فوجی حملوں کے بعد تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایرانی صدر، جو دورہ مکمل کرنے کے بعد بدھ کو سری لنکا کیلئے روانہ ہوئے، نے پاکستان کے ساتھ تجارت کو سالانہ 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

ان کے دورہ پاکستان کے دوران

پاکستان کے دورے کے دوران رئیسی کے حوالے سے ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے کہاکہ اگر تہران پر تل ابیب کی جانب سے مزید کوئی حملہ کیا گیا تو اس سے خطے کے ڈائنامکس تبدیل ہوجائیں گے اور تل ابیب کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔

13 اپریل کو تہران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز کا بیراج بھیجا تھا، جسے ایرانی حکومت نے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے احاطے پر اسرائیل کے مشتبہ مہلک حملے کا بدلہ قرار دیا تھا۔ البتہ اسرائیل بھیجے جانے والے بیشتر ڈرون گرادیے گئے تھے۔

پاکستان نے پہلے بھی ”تمام فریقین“ کی طرف سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایران اور پاکستان نے رئیسی کے دورے کے دوران تجارتی اور توانائی کے تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا، جس میں ایک اہم گیس پائپ لائن معاہدہ بھی شامل ہے جسے جغرافیائی سیاسی مسائل اور بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے تاخیر کا سامنا ہے۔

آزاد تجارتی معاہدے

دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے مقصد کے ساتھ، دونوں پڑوسی ممالک نے آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کو تیزی سے حتمی شکل دینے اور سالانہ دو طرفہ سیاسی مشاورت (بی پی سی) اور مشترکہ بزنس ٹریڈ کمیٹی(جے بی ٹی سی) کے اگلے اجلاس منعقد کرنے اور مستقبل قریب میں مشترکہ اقتصادی کمیشن (JEC) کے مذاکرات کے 22 ویں دور پر بھی اتفاق کیا۔

مشترکہ بیان کے مطابق، فریقین نے اقتصادی تعاون کو تیز کرنے کے لیے اقتصادی اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس کے وفود کے باقاعدہ تبادلے کی سہولت پر بھی اتفاق کیا۔

ٹی آئی آر کے تحت ریمدان بارڈر پوائنٹ کو بین الاقوامی سرحدی کراسنگ پوائنٹ قرار دینے اور باقی دو بارڈر مارکیٹس کھولنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

قیدیوں کی رہائی

فریقین نے ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرنے اور ایران اور پاکستان کے درمیان 1960 میں منظور کیے گئے مجرموں اور ملزمان کی حوالگی کے معاہدے اور مجرموں کی منتقلی کے معاہدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی اور ان کی حوالگی کے لیے اقدامات کرنے کے معاہدے کا بھی اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان 2016 میں منظوری دی گئی۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ دونوں اطراف نے دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر میں مذمت کی اور “اس بات کو تسلیم کیا کہ دہشت گردی علاقائی امن اور استحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہے اور خطے کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

بیان کے مطابق دونوں ممالک نے دہشتگردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنانے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کو مکمل طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے موجودہ دو طرفہ ادارہ جاتی میکانزم سے فائدہ اٹھانے پر اتفاق کیا۔

افغانستان کی ترقی کے عزم کا اعادہ

پاکستان اور ایران نے افغانستان کی ترقی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا، اور انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے لیے تعاون بڑھانے اور دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ تیار کرنے کے لیے اپنی آمادگی کا اعادہ کیا۔

افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے دونوں فریقوں نے تسلیم کیا کہ بنیادی فیصلہ سازی میں افغانوں کے تمام طبقات کی بڑھتی ہوئی شرکت اس ملک میں امن اور استحکام کی مضبوطی کا باعث بنے گی۔

Comments

200 حروف