وزیر بجلی نے عید کی چھٹیوں کے دوران بجلی کی قیمت میں 3 روپے فی یونٹ کی عارضی کمی پر قوم کو مبارکباد پیش کی، جو اگلے تین ماہ تک کیلئے برقرار رہے گی۔ پچھلی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کو نئی ایڈجسٹمنٹ سے تبدیل کیا گیا جو قدرے کم ہے۔ یاد رہے کہ اپریل 2024 میں اس کمی کے باوجود اوسط رہائشی بجلی کا ٹیرف گزشتہ سال کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ رہے گا۔ یقینی خوشی کی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

اس سے بھی بدتر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جس کو طویل عرصے سے توانائی بحران کا سامنا ہے، وہ اس میں مزید ڈوبتا جا رہا ہے۔ صحارا افریقہ کے بعد پاکستان دنیا میں سب سے کم فی کس بجلی استعمال کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے ۔ پاکستان نے اس معاملے میں خود کو انگولا، کانگو، یمن، سوڈان، موزمبیق اور دیگرممالک کے برابر کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حالات بھی ان ممالک جیسے ہیں، کیونکہ یہاں انسانی ترقی سے لے کر صحت کی سہولیات تک رسائی اور اظہار رائے کی آزادی سے لے کر قانون کی حکمرانی تک بہت ساری باتیں پاکستان جیسی ہیں۔

یہ کافی حیران کن ہے کہ پاکستان میں بجلی کے کنکشن کی اوسط کھپت 20 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے لے کر قدرتی آفات تک کا سامنا ہے، لیکن اس جمود کی مثال نہیں ملتی۔ اس سب کے دوران، خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں شہری آبادی بڑھ رہی ہے اور خطے میں سب سے زیادہ اس ملک میں بجلی دستیاب ہے۔ لیکن دو دہائیوں میں بجلی کے استعمال میں اضافہ نہ ہونا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان خوشحالی میں کس قدر پیچھے رہ گیا ہے۔

 ۔
۔

اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ کبھی نہ ختم ہونے والا ٹیرف اورریشنلائزیشن سے آگے دیکھنا چاہیے۔ اور یہ وہ جگہ ہے جہاں اچھی خبر ہے۔ ہماری فی کس کھپت افریقی ممالک کے برابر ہے۔ پاکستان ایک معاملے میں تو اب امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سنگاپور جیسے ممالک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ اور وہ ہے 300 یونٹس سے زیادہ استعمال کرنے پر بجلی کا موجودہ ٹیرف۔ یہ بجلی کا ٹیرف اب امریکہ کے برابر اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ ہے، اور سنگاپور کے قریب تر ہے۔ ہمیں یہاں بجلی کی قوت خریداری کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔

اگلی بیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں بجلی کی قوت خرید نہیں بلکہ بجلی کی خریداری کی قیمت اہم جز ہوگا، جو مزید اذیت کا باعث ہے۔ یہاں بیس ٹیرف کے لیے زمینی حقیقت کا احترام ضروری ہے۔ لیکن موجودہ ٹیرف زمینی حقیقت کے مطابق نہیں ہے ، جس میں ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے بار بار تبدیلی کی جاتی ہے، یہ سب خود ریگولیٹر کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ کھپت کو بڑھانے کے طریقے تلاش کرنا ہے۔ موجودہ اور مجوزہ ٹیرف اسکیم کے ساتھ بجلی کی کھپت بڑھانے کا امکان کم ہے۔ ٹیکس اور سرچارجز بجلی کے بل کا 20 فیصد ہیں – اور یہ جاری نہیں رہ سکتے۔ لیکن ریونیو کے حالات افسوسناک ہیں، بجلی اور پی او ایل ٹیکس بنیادی طور پر ایف بی آر کے لیے لائف لائن ہیں۔

بجلی کی پیداوار متاثر ہی رہے گی کیونکہ بجلی خریداری کے منصوبے میں ترسیلی نظام کی رکاوٹوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔ جنوب سے شمال کی طرف سپلائی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے اور ملک گیر بلیک آؤٹ سے بچنے کے لیے زیادہ مہنگے پاور پلانٹس چلانے پڑتے ہیں۔ قوانین کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ڈیمانڈ ہونے کے باوجود ڈسٹری بیوشن کمپنیاں لوڈ شیڈنگ کرتی رہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام کمپنیاں طلب پوری ہونے کو یقینی بنانے کے بجائے نقصانات کو کنٹرول کرنے میں ناکامیوں کو چھپارہی ہیں، جس سے فی یونٹ قیمت کم ہو سکتی ہے۔

ٹرانسمیشن کی رکاوٹیں جلد حل نہیں ہونے والی۔ یہ 2030 تک نہیں ہوگا جب شمال میں قابل اعتماد ذرائع سے ہائیڈل بجلی آنے لگے گی۔ جمود اور گراٹ کا شکارکھپت، ناکارہ ٹرانسمیشن سسٹم، نااہل ڈسٹری بیوٹر، بجلی کے ٹیکسوں پر حد سے زیادہ انحصار کرنے والا وفاق اورتنزلی کا شکار معیشت یہ وہ تمام اجزاء ہیں جو پاکستان کو توانائی کے بحران کی گہرائی میں دھکیل سکتے ہیں۔ کسی نہ کسی کوکسی نہ کسی طرح گھر کو بہتربنانا ہوگا۔

Comments

200 حروف