فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے وزیرِاعظم شہبازشریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یکم جولائی 2025 سے فرنس آئل پر عائد 77 روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی (پی ایل) کو فوری طور پر واپس لیں۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اس فیصلے سے بڑے پیمانے پر صنعتی بندش، برطرفیاں اور برآمدات کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
وزیرِاعظم کو بھیجے گئے ایک باضابطہ خط میں ایف پی سی سی آئی نے نئے نافذ کیے گئے پٹرولیم لیوی کے سنگین نتائج کی نشاندہی کی، ساتھ ہی فنانس بل 2025-26 کے تحت 2.5 روپے فی لیٹر اضافی کاربن لیوی (سی ایل) پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
حکومت کے وسیع تر مالیاتی اور پائیداری اہداف کو تسلیم کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی نے کہا ہے کہ یہ پالیسی زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتی اور پاکستان کے صنعتی اور برآمدی شعبوں کے وجود کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے مطابق نئی لیوی کے باعث فرنس آئل کی قیمت 82 ہزار روپے فی میٹرک ٹن سے تجاوز کرگئی ہے، جو کہ 80 فیصد سے زائد اضافہ ہے۔ ایک درمیانے درجے کا صنعتی یونٹ جو روزانہ 20 میٹرک ٹن فرنس آئل استعمال کرتا ہے، اب روزانہ 16 لاکھ 40 ہزار روپے اور ماہانہ تقریباً 5 کروڑ روپے کے اضافی لاگت کے بوجھ کا سامنا کررہا ہے۔
وفاقی چیمبر نے خبردار کیا کہ زیادہ تر صنعتی صارفین کے لیے یہ کوئی معمولی لاگت میں ردوبدل نہیں بلکہ بقاء اور بندش کے درمیان فیصلہ کن موڑ ہے۔
متعدد صنعتی اداروں نے گیس پر مبنی پیداوار کے معاشی طور پر غیر مؤثر ہونے اور گرڈ ٹرانزیشن لیوی (جی ٹی ایل) کے نفاذ کے بعد فرنس آئل پر مبنی کیپٹیو پاور جنریشن کو اختیار کر لیا تھا کیونکہ پرانے صنعتی علاقوں اور نیم شہری کلسٹرز میں گرڈ سے بجلی کی فراہمی محدود تھی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ گرڈ کی توسیع اور منظور شدہ لوڈ میں اضافہ عموماً 3 سے 5 سال کا وقت لیتا ہے۔ یہ صنعتیں یکدم متبادل اختیار نہیں کرسکتیں۔ جب نہ گیس دستیاب ہو اور نہ ہی گرڈ سے رسائی ممکن ہو، تو فرنس آئل ہی ان کے لیے واحد ذریعہ بقا ہے۔
متعدد بڑے صنعتکاروں اور برآمد کنندگان نے حالیہ برسوں میں پالیسی استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے فرنس آئل پر مبنی انجنز میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ تاہم اب فرنس آئل کی قیمت 185 روپے فی لیٹر سے تجاوز کر چکی ہے، جس کے باعث کیپٹیو پاور جنریشن کی لاگت 48 سے 52 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے جو گرڈ ریٹس سے کہیں زیادہ ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے خبردار کیا ہے کہ یہ ادارے نہ تو دوبارہ گیس پر منتقل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی فوری طور پر گرڈ سے منسلک ہو سکتے ہیں، صرف ان اداروں کی برآمدات، جن کی مالیت 1.5 ارب ڈالر سے زائد ہے، براہ راست خطرے سے دوچار ہیں، جہاں آرڈرز منسوخ ہونے، ڈیڈ لائنز پوری نہ ہونے اور ناقابلِ برداشت پیداواری لاگت جیسے مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ ادارے نے نشاندہی کی کہ بعض کمپنیاں پہلے ہی بندش کے عمل کا آغاز کرچکی ہیں۔
خط میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ فرنس آئل خام تیل کو ریفائن کرنے کا ایک بائی پروڈکٹ ہے۔ اگر یہ ملک میں فروخت کے قابل نہ رہے یا برآمد کرنا منافع بخش نہ ہو تو ریفائنریز کو اپنے آپریشنز کم کرنا پڑتے ہیں، جس سے پٹرول، ڈیزل اور جیٹ فیول کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے نشاندہی کی کہ یہ صورتحال گزشتہ 18 ماہ میں کئی بار پیش آچکی ہے، جہاں ریفائنریز کو محض پلانٹس کو چلانے کے لیے نقصان اٹھا کر فرنس آئل برآمد کرنا پڑا۔ ادارے نے خبردار کیا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک میں ریفائننگ کے عمل کی ممکنہ بندش کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
فرنس آئل پر مبنی تھرمل پاور پلانٹس، جو زیادہ طلب اور گرڈ میں عدم استحکام کے دوران ہنگامی طور پر بجلی کی فراہمی بڑھانے کے لیے ناگزیر ہیں بھی اس صورتحال سے متاثر ہوں گے۔ فرنس آئل کے ناقابلِ برداشت مہنگا ہونے کے باعث بجلی پیدا کرنے والے ادارے اس کا ذخیرہ کرنا بند کرسکتے ہیں، جس سے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ اور گرڈ میں عدم استحکام کے خطرات بڑھ جائیں گے۔
ہزاروں آئل ٹینکرز، جو فرنس آئل کی ترسیل پر انحصار کرتے ہیں بحران سے دوچار ہو گئے ہیں، جس کے اثرات ایندھن کی وسیع تر ترسیلی نظام اور روزگار کے شعبے پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔
سیمنٹ ساز ادارے، جو بھٹیوں کی سرگرمی یا ہنگامی بجلی کی ضروریات کے لیے فرنس آئل استعمال کرتے ہیں، توانائی کے اخراجات میں نمایاں اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔ ایک 2,000 میٹرک ٹن یومیہ صلاحیت کی بھٹی کے لیے یہ اضافہ سالانہ 30 کروڑ روپے سے تجاوز کرسکتا ہے۔ اسی طرح شیشہ سازی کی صنعت، جو بلند درجہ حرارت کی بھٹیوں میں فرنس آئل استعمال کرتی ہے، شدید متاثر ہوگی کیونکہ توانائی ان کی مجموعی لاگت کا تقریباً 30 فیصد حصہ بنتی ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ فرنس کی بندش سے پگھلا ہوا مواد ضائع ہو جاتا ہے اور مشینری کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس شعبے میں عارضی طور پر کام روکنا بھی معاشی طور پر تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ ادارے نے مزید خبردار کیا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں ہزاروں ہنر مند اور نیم ہنر مند افراد روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔
ایف پی سی سی آئی نے اپنی انرجی ایڈوائزری کمیٹی کے تفصیلی جائزے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مجوزہ پالیسی سے کوئی خاطر خواہ ریونیو حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ جس مصنوعات پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے—یعنی فرنس آئل—وہ معاشی طور پر غیر مؤثر ہونے کے باعث مارکیٹ سے تقریباً ختم ہوجائے گی۔
ایف پی سی سی آئی نے زور دیا کہ یہ محض ٹیکس کا مسئلہ نہیں بلکہ معاشی بقاء کا معاملہ ہے۔
ادارے نے اس کے حل کے لیے درج ذیل تین اصلاحی اقدامات تجویز کیے: فرنس آئل پر 77 روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی کو فوری طور پر واپس لیا جائے؛ کاربن لیوی کو پیٹرول اور ڈیزل کی شرح کے مطابق، یکساں طور پر 2.5 روپے فی لیٹر کی معمولی سطح پر لاگو کیا جائے؛ مرحلہ وار طریقہ اپنایا جائے، اور صرف اس وقت لیوی کو 5 روپے فی لیٹر تک بڑھایا جائے جب صنعتی صارفین کے لیے گیس یا گرڈ جیسے متبادل ذرائع قابلِ عمل طور پر دستیاب ہو جائیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments