عرب ممالک نے اتوار کے روز ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے سنگین نتائج سے خبردار کیا اور سفارتکاری کی طرف واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
خطے میں ایران کے سابق حریف سعودی عرب، جو 2023 سے چین کی ثالثی میں تہران کے ساتھ سفارتی مفاہمت میں مصروف ہے، نے ان حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خلیجی ممالک، خاص طور پر سعودی عرب، عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کی جانب سے 13 جون کو ایران کے خلاف فضائی کارروائی شروع کیے جانے کے بعد سے سفارتی سطح پر بھرپور سرگرمیوں میں مصروف ہیں تاکہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوئی سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔
متعدد تیل سے مالا مال عرب ممالک، جو اپنے ہاں بڑے امریکی فوجی اثاثے اور اڈے رکھتے ہیں، اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ جنگ کا پھیلاؤ ان کی سلامتی اور معاشی استحکام کو شدید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
قطر، جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ رکھتا ہے، نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال کے ہولناک نتائج صرف خطے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یمن کے حوثی باغیوں نے ایران پر امریکی فضائی حملوں کے بعد ایک بار پھر بحر احمر میں امریکی بحری جہازوں اور جنگی بیڑوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دہرائی ہے۔ انہوں نے ان حملوں کو ایرانی عوام کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ اس گروہ نے ہفتہ کے روز خبردار کیا تھا کہ اگر واشنگٹن نے ایران پر حملہ کیا تو وہ عمان کی ثالثی سے طے پانے والی حالیہ جنگ بندی کے باوجود، بحر احمر میں امریکی اہداف پر حملے دوبارہ شروع کر دیں گے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں ایران کی مرکزی جوہری تنصیبات تباہ کر دی گئی ہیں، اور اسے ایک شاندار فوجی کامیابی قرار دیا ہے۔
تاہم خلیج میں امریکہ کے قریبی اتحادی، جو ایران کے ہمسایہ بھی ہیں، سفارتکاری کی راہ پر واپسی پر زور دے رہے ہیں۔
عمان، جو واشنگٹن اور تہران کے درمیان جوہری مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا، نے ان حملوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی اور فوری طور پر کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بھی حملوں کے بعد گہری تشویش کا اظہار کیا اور کشیدگی کے فوری خاتمے کی اپیل کی ہے۔
بحرین، جہاں امریکہ کا اہم بحری اڈہ واقع ہے، نے کشیدگی کے پیشِ نظر اپنے زیادہ تر سرکاری ملازمین کو آئندہ احکامات تک گھروں سے کام کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی بحریہ کا پانچواں بیڑہ اسی ملک میں تعینات ہے۔
کویت نے اعلان کیا ہے کہ اس کی وزارت خزانہ نے ایک ہنگامی منصوبہ فعال کر دیا ہے جس میں پناہ گاہوں کی تیاری بھی شامل ہے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے بھی ایران پر امریکی حملوں کو کھلی امریکی جارحیت قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
عراق، جو اپنے ہاں امریکی فوجی اڈوں کا میزبان ہے، نے بھی ان حملوں پر گہری تشویش اور شدید مذمت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مشرقِ وسطیٰ میں امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ یہ بیان عراقی حکومت کے ترجمان باسم العوادی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
عراق میں یہ خدشات تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ ایران کی حمایت یافتہ مسلح گروہ خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنا سکتے ہیں، خاص طور پر اگر واشنگٹن نے ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں عملی طور پر شمولیت اختیار کی۔
لبنان کے صدر جوزف عون، جنہیں عمومی طور پر امریکہ کے قریب سمجھا جاتا ہے، نے دونوں فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات دوبارہ شروع کریں تاکہ خطے میں استحکام بحال ہو سکے۔
لبنان پہلے ہی اسرائیل اور ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان غزہ جنگ کے پس منظر میں ہونے والی شدید جھڑپوں سے سخت متاثر ہے۔ اگرچہ گزشتہ نومبر میں ایک کمزور سی جنگ بندی طے پا گئی تھی، لیکن اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ پر حملے مسلسل جاری رہے۔
مصر نے بھی ایران میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی مذمت کی ہے اور اسے خطے کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ قاہرہ نے بھی سفارتی حل کی طرف واپسی پر زور دیا ہے۔
Comments