اسرائیلی حملوں کے دوران جوہری مذاکرات نہیں ہوں گے، ایران کا اعلان؛ ٹرمپ کا ممکنہ اقدامات پر غور
- ایران کا اسرائیل پر جمعہ کی صبح میزائلوں کا ایک اور حملہ
ایران نے جمعہ کے روز واضح کیا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے جاری رہتے ہوئے وہ اپنے جوہری پروگرام کے مستقبل پر کسی قسم کی بات چیت نہیں کرے گا، جب کہ یورپی ممالک تہران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکہ اس تنازع میں ممکنہ شمولیت پر غور کر رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کے آغاز کو ایک ہفتہ مکمل ہو چکا ہے اور اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تہران میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق تحقیقی اداروں اور میزائل ساز مراکز سمیت درجنوں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
جواباً ایران نے جمعہ کی صبح ایک اور میزائل حملہ کیا، جس میں جنوبی شہر بیر شیبہ میں رہائشی عمارتوں، دفتری مراکز اور صنعتی تنصیبات کے قریب گولہ باری کی گئی۔
ادھر وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں میں یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا امریکہ کو اس تنازع میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں، کیونکہ مستقبل قریب میں ایران کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کا امکان موجود ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعہ کو دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ جب تک اسرائیلی جارحیت بند نہیں ہوتی، امریکہ، جو اسرائیل کا اتحادی اور طاقتور پشت پناہ ہے، سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی جمعہ کی شام جنیوا میں یورپی وزرائے خارجہ سے ملاقات کے لیے متوقع ہے، جہاں یورپ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر سفارت کاری کی بحالی کا کوئی راستہ نکالا جا سکے۔
فرانس، برطانیہ، جرمنی اور یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ کی شرکت سے قبل دو سفارت کاروں نے بتایا کہ عراقچی کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ امریکہ اب بھی براہِ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ تاہم، سفارتی ذرائع کے مطابق کسی فوری پیش رفت کی توقع کم ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ جمعہ ایران پر حملوں کا آغاز کیا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کا دیرینہ دشمن جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ ایران، جو اپنا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے قرار دیتا ہے، نے میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی ہے۔
اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہونے کا وسیع پیمانے پر یقین پایا جاتا ہے، تاہم اسرائیل اس کی تصدیق کرتا ہے نہ ہی تردید۔
امریکی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹس نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں ایران میں اب تک 639 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں فوج کے اعلیٰ افسران اور جوہری سائنس دان شامل ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں میں کم از کم دو درجن اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز دونوں جانب سے ہلاکتوں کے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکی جبکہ تازہ حملوں میں جانی نقصانات کی تفصیلات بھی فوری طور پر دستیاب نہ ہو سکیں۔
عام شہریوں کی ہلاکتیں
دونوں فریق دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے حملے صرف فوجی اور دفاعی اہداف پر مرکوز ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ عام شہری بھی ان حملوں کی زد میں آ رہے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اسپتالوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگا چکے ہیں۔
ایران کی ایک مقامی نیوز ویب سائٹ نے بتایا ہے کہ جمعہ کو ایک ڈرون حملے نے تہران کے مرکزی علاقے میں ایک رہائشی عمارت کے فلیٹ کو نشانہ بنایا، تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
جوہری خطرات پر ماہرین کی تشویش
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران میں اب تک کی گئی اسرائیلی بمباری، جو کہ جوہری تنصیبات پر مرکوز ہے، سے جوہری مواد کے پھیلاؤ کا خطرہ فی الحال محدود ہے۔ تاہم وہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر جنوبی ایران میں بوشہر کے جوہری بجلی گھر پر حملہ کیا گیا تو ایک بڑے پیمانے پر جوہری آفت جنم لے سکتی ہے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن وہ خطے میں کسی بھی جوہری تباہی سے بچنا چاہتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقے میں جو کروڑوں انسانوں کی رہنے کی جگہ ہے اور جہاں سے دنیا کا ایک بڑا حصہ تیل حاصل کرتا ہے۔
جنیوا میں جمعہ کی دوپہر ایک اہم سفارتی اجلاس شروع ہونے والا تھا، وہی شہر جہاں 2013 میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے پابندیاں اٹھانے کا ابتدائی معاہدہ طے پایا تھا، جس کے بعد 2015 میں ایک جامع جوہری معاہدہ ہوا۔
تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکا کو اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ کر دیا۔ جون 12 کو اسرائیل کی جانب سے ”آپریشن رائزنگ لائن“ (آپریشن ابھرتا ہوا شیر) کے آغاز اور ایران کی جوہری و بیلسٹک تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان نئے مذاکراتی سلسلے بھی منقطع ہو چکے ہیں۔
ٹرمپ ایک طرف تہران کو دھمکاتے رہے ہیں تو دوسری جانب اسے مذاکرات کی میز پر واپس لانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کے خصوصی ایلچی، اسٹیو وٹکوف، گزشتہ ہفتے سے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے متعدد بار رابطہ کر چکے ہیں۔
خطے میں تناؤ کی جڑیں
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا آغاز اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے سے ہوا، جس کے نتیجے میں غزہ جنگ چھڑ گئی اور اسرائیل کو ایران کے اتحادیوں کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔
جمعہ کو اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایرانی اتحادی حزب اللہ کے خلاف مزید کارروائی کی دھمکی دی ہے جب ایک روز پہلے حزب اللہ نے ایران کی حمایت کا عندیہ دیا تھا۔
مغربی اور علاقائی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کو کہا ہے کہ ایرانی حکومت کا زوال ایک ممکنہ نتیجہ ہو سکتا ہے مگر اصل ذمہ داری ایرانی عوام کی ہے کہ وہ اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
داخلی مزاحمت، مگر خاموشی غالب
ایرانی حزبِ اختلاف کے کچھ گروپوں کا خیال ہے کہ تبدیلی کا وقت قریب آ چکا ہے مگر گزشتہ مظاہروں میں شریک کارکنوں کا کہنا ہے کہ غیرمعمولی بیرونی حملوں کے ماحول میں عوام سڑکوں پر نکلنے سے گریزاں ہیں۔
سرکردہ سماجی کارکن آتنا دائمی جنہوں نے ایران میں چھ سال قید کاٹی اور اب ملک چھوڑ چکی ہیں، کہتی ہیں کہ ایسے ہولناک حالات میں لوگ صرف اپنی، اپنے اہل خانہ، ہم وطنوں، اور حتیٰ کہ اپنے پالتو جانوروں کی جان بچانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ عوام سڑکوں پر کیسے نکلیں؟
Comments