ایران اور اسرائیل نے جمعرات کو ایک دوسرے پر مزید فضائی حملے کیے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ واضح نہ کیے جانے پر دنیا بے یقینی کا شکار رہی کہ آیا امریکہ ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں میں شامل ہوگا یا نہیں۔

اسرائیل نے اپنے ایک ہفتے سے جاری فضائی اور میزائل حملوں کے نتیجے میں ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت کا صفایا کردیا اس کی جوہری صلاحیت کو شدید نقصان پہنچایا اور سیکڑوں افراد کو شہید کردیا جبکہ ایران کی جوابی کارروائی میں اسرائیل میں دو درجن کے قریب شہری ہلاک ہوئے۔

حریفوں کے درمیان اب تک کا شدید ترین تصادم اس خدشے کو بڑھا رہا ہے کہ کہیں یہ تنازع عالمی طاقتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے، اور وہ خطہ جو پہلے ہی غزہ کی جنگ کے اثرات سے غیر مستحکم ہے، مزید بحران کا شکار نہ ہو جائے۔

بدھ کو وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ آیا انہوں نے اسرائیل کی فضائی مہم میں شامل ہونے کا کوئی فیصلہ کیا ہے یا نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں یہ کرسکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا۔ میرا مطلب ہے، کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے والا ہوں۔

بعد ازاں اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایرانی حکام واشنگٹن آکر ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور ممکن ہے ہم یہ ملاقات کریں، تاہم انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ اب یہ بات چیت کچھ تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر ٹرمپ کی ایران سے ہتھیار ڈالنے کی سابقہ اپیل کو سختی سے مسترد کردیا۔ یہ ردعمل ان کی ایک ریکارڈ شدہ تقریر میں سامنے آیا جو ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی — اور یہ جمعہ کے بعد ان کی پہلی عوامی ظاہری موجودگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی امریکی فوجی مداخلت کے ساتھ ناقابلِ تلافی نقصان ضرور ہوگا، ایرانی قوم ہرگز ہتھیار نہیں ڈالے گی۔

ایران کا مؤقف ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا اور اس کا جوہری پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے گزشتہ ہفتے کہا کہ تہران بیس سال میں پہلی بار اپنے جوہری عدم پھیلاؤ (نان-پرو لیفریشن) کے وعدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔

جرمن سفارتی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ جمعہ کو جنیوا میں اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ جوہری مذاکرات کریں گے تاکہ ایران پر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آنے پر زور دیا جاسکے۔

تاہم سفارتی کوششیں جاری رہنے کے باوجود، بدھ کو تہران کے کچھ رہائشی — جو ایک کروڑ آبادی پر مشتمل شہر ہے — اسرائیلی فضائی حملوں میں شدت کے بعد پناہ کی تلاش میں شہر سے باہر جانے والی شاہراہوں پر امڈ آئے۔

31 سالہ تہران کی رہائشی آریزو نے رائٹرز کو فون پر بتایا کہ وہ شہر سے نکل کر قریبی مقام لواسـان پہنچ چکی ہیں۔

آریزو نے کہا کہ میری ایک دوست کا گھر تہران میں حملے کا نشانہ بنا اور اس کا بھائی زخمی ہو گیا۔ وہ سب عام شہری ہیں، ہم حکومت کے جوہری پروگرام کے فیصلے کی قیمت کیوں ادا کر رہے ہیں؟

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، صدر ٹرمپ نے اپنے اعلیٰ مشیروں کو بتایا ہے کہ انہوں نے ایران پر حملے کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، تاہم وہ حتمی حکم اس امید پر روک کر رکھے ہوئے ہیں کہ شاید تہران اپنا جوہری پروگرام ترک کردے۔

بلوم برگ نیوز نے بدھ کو باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ سینئر امریکی حکام آئندہ چند دنوں میں ایران پر ممکنہ حملے کے لیے تیاری کررہے ہیں۔

ڈرون اٹیک

نیم سرکاری خبر رساں ادارے ایس این این رپورٹ کیا کہ جمعرات کی صبح تہران میں فضائی دفاعی نظام فعال کر دیا گیا جس نے دارالحکومت کے نواح میں ڈرونز کو روکا۔ ایرانی خبر رساں ادارے نے یہ بھی اطلاع دی کہ مشہد میں اسرائیلی حملوں کے لیے ڈرون تیار کرنے والے 18 دشمن ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے بتایا کہ جمعرات کو شمالی اسرائیل اور وادی اردن میں سائرن بجائے گئے اور ایران سے داغے گئے دو ڈرونز کو روک لیا گیا۔

ایران کی جانب سے داغے گئے میزائل حملے، دہائیوں پر محیط خفیہ جنگ اور پراکسی تنازعات کے باوجود، پہلی بار ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں ایرانی میزائل دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اسرائیلی گھروں تک پہنچے اور شہری ہلاکتوں کا باعث بنے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بدھ کو اپنے دفتر سے جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اسرائیل قدم بہ قدم ایران کے جوہری ٹھکانوں اور بیلسٹک میزائل ذخیرے سے لاحق خطرات کے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

نیتن یاہو نے کہا کہ ہم جوہری تنصیبات، میزائلوں، ہیڈکوارٹرز اور حکومت کی علامتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اسرائیل، جو بین الاقوامی معاہدہ برائے جوہری عدم پھیلاؤ کا فریق نہیں ہے، مشرق وسطیٰ کا واحد ملک سمجھا جاتا ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ تاہم اسرائیل اس کی نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔

نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہیں انہوں نے ”ریاستِ اسرائیل کا عظیم دوست“ قرار دیا، اور کہا کہ موجودہ تنازع میں ٹرمپ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور دونوں رہنماؤں کے درمیان مسلسل رابطہ قائم ہے۔

صدر ٹرمپ اس جنگ کے حوالے سے متضاد بیانات دے چکے ہیں — ایک جانب وہ جنگ کا فوری سفارتی حل تجویز کرتے ہیں، تو دوسری جانب یہ عندیہ بھی دیتے ہیں کہ امریکہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

منگل کے روز سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس میں انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کے امکان پر بھی غور ظاہر کیا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے جب جمعرات کو یہ پوچھا گیا کہ اگر اسرائیل، امریکی مدد سے، ایران کے سپریم لیڈر کو قتل کر دیتا ہے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس امکان پر بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ میں بالکل نہیں چاہتا۔

Comments

200 حروف