فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو ہر قسم کی ٹیکس سے متعلق تجاویز، بشمول کسی بھی قسم کی چھوٹ، ٹیکس کی شرحوں میں کمی یا ٹیکس نظام میں کوئی تبدیلی، پر عملدرآمد سے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے منظوری لینا لازمی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو بریفنگ دیتے ہوئے راشد محمد نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے دوران ایف بی آر کی جانب سے نفاذی اقدامات کے ذریعے 389 ارب روپے جمع کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ملک کی ٹیکس وصولیوں کی کارکردگی پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے اور ایف بی آر حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان ہفتہ وار ملاقاتیں ہوں گی تاکہ نفاذی اقدامات کے نتائج کا جائزہ لیا جا سکے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک نجی اسٹیک ہولڈر نے ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (آر ای آئی ٹی) کو حاصل ٹیکس چھوٹ کی مدت ختم ہونے کا معاملہ اٹھایا، جو ایک سال قبل ختم ہو چکی تھی۔
چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹرز کی تجاویز پر وقت مانگا، جب کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی اراکینِ کمیٹی کی تجاویز کی تائید کی۔
وزارت تجارت کے سیکریٹری نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نئی تجارتی پالیسی میں 4 ٹیرف سلیبز (0، 5، 10، 15 فیصد) تجویز کی گئی ہیں جن کا مقصد مقامی صنعتوں کو سہارا دینا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کمیٹی کو بتایا کہ نئی ٹیرف اسٹرکچر کے تحت درآمدی خام مال اور درمیانی مصنوعات پر ڈیوٹی میں پہلے سال کمی کی جائے گی۔ یہ اقدام صنعتی معاونتی پیکج کا حصہ ہے، تاکہ پیداواری لاگت میں کمی ممکن ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے درآمدات کو کم کرنے کے لیے بلند درآمدی ڈیوٹیاں عائد کیں، لیکن اس حکمتِ عملی سے طویل مدتی اقتصادی فوائد حاصل نہیں ہو سکے۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ماضی میں بڑھائے گئے ٹیرف اکثر غیر فعال یا غیر مؤثر صنعتی یونٹس کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کیے گئے، جس سے مارکیٹ میں مقابلہ کم ہوا اور اختراع کی حوصلہ شکنی ہوئی۔
سینیٹ کی کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ پاکستان کو اپنی پیداواری لاگت فوری طور پر کم کرنی ہو گی، خاص طور پر بھارت اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کے مقابلے میں، جہاں برآمد کنندگان کو کہیں کم بجلی نرخوں کا فائدہ حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی برآمد کنندگان مہنگی توانائی کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں مسابقت سے محروم ہیں۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ حکومت کاروباری لاگت کو کم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ صنعتی شعبے کے لیے بجلی کے نرخوں میں پہلے ہی کمی کی جا چکی ہے، جب کہ آئندہ مالی سال میں شرح سود 10 فیصد سے کم ہونے کی توقع ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت صنعتی ٹیکس سے متعلق مسائل کے حل پر بھی کام کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ٹیرف اصلاحات پر خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہے، جو پاکستان کے ٹیرف نظام کو مزید مسابقتی اور ترقی پر مبنی بنانے کے لیے طویل مدتی اصلاحات پر کام کرے گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments