سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ہفتہ کے روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مجوزہ فنانس بل 26-2025 کے تحت چیف ایگزیکٹو آفیسرز (سی ای اوز)، چیف فنانشل آفیسرز (سی ایف اوز) اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ٹیکس فراڈ کے الزامات میں گرفتار کرنے کے اختیارات دینے کی شدید مخالفت کی۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کو فوجداری قوانین( سی آر پی سی) جیسے اختیارات دینا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں فنانس بل 26-2025 کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، جس میں ٹیکس کے نظام میں انصاف، ایف بی آر کی ”پولیسنگ“ اور مجوزہ ترامیم پر سخت تنقید سامنے آئی۔
سینیٹر مانڈوی والا نے خبردار کیا کہ ایف بی آر کا کوئی جونیئر افسر بھی اگر نوٹس جاری کرے تو پورے نظام میں افراتفری پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے ان اختیارات کے غلط استعمال کے شدید خدشات کا اظہار کیا۔
دوسری جانب، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے مجوزہ ترامیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹیکس افسران کو گرفتاری سے روکا نہیں جاتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی ٹیکس فراڈ پر گرفتاری کے اختیارات موجود ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں ٹاپ 5 فیصد امیر ترین گھرانے 1.6 کھرب روپے کے ٹیکس کی چوری کرتے ہیں۔ صرف ٹاپ 1 فیصد گھرانے ہی 1.233 کھرب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں، جب کہ باقی 95 فیصد صرف 140 ارب روپے چوری کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں 67 ملین افراد پر مشتمل ورک فورس ہے، لیکن 95 فیصد آبادی ٹیکس ادا کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ ٹیکس کا اصل بوجھ چند امیر افراد پر ہونا چاہیے، مگر نظام اس کے برعکس کام کر رہا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے مزید کہا کہ کسٹمز پر بلند ٹیرف مقامی صنعتوں میں غیر مؤثر مقابلہ بازی پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے سفارش کی کہ درآمدی ٹیرف کو ختم کیا جائے تاکہ معیشت کو مسابقتی بنایا جا سکے۔
اجلاس کے دوران، سینیٹ کمیٹی نے کچھ سفارشات پیش کیں، جن میں سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد جی ایس ٹی ختم کرنا اور کم از کم اجرت 37,000 سے بڑھا کر 40,000 روپے کرنا شامل ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے معیشت میں دولت کی غیر مساوی تقسیم کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ صرف 5 فیصد افراد ہی پاکستان کی دولت پر قابض ہیں، جبکہ باقی 95 فیصد کے پاس نہ ایئر کنڈیشنر ہیں اور نہ ٹیکس ادا کرنے کی سکت۔
کسٹمز ایکٹ 1969 میں مجوزہ ترامیم پر بھی غور کیا گیا، جن میں کارگو کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل کارگو ٹریکنگ سسٹم (سی ٹی ایس) متعارف کرانے کی تجویز دی گئی۔ اس سسٹم کے ذریعے نان-ڈیوٹی پیڈ یا اسمگل شدہ سامان کی شناخت ممکن ہو گی۔
ایک اور مجوزہ ترمیم کے تحت تجویز دی گئی کہ پوسٹ یا کورئیر کے ذریعے درآمد شدہ اشیاء کی مالیت اگر 5,000 روپے سے کم ہو تو ان پر کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس لاگو نہ ہو۔ تاہم، اس سہولت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے یہ حد کم کرکے 500 روپے کر دی جائے۔
سینیٹر شبلی فراز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو پولیس اسٹیٹ بنایا جا رہا ہے، حتیٰ کہ ٹیکس دہندگان بھی بھاگ جائیں گے۔“
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے اینٹی منی لانڈرنگ نوٹسز کے کاروباری اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ ایک تاجر کی درآمد یا برآمد کی صلاحیت کو مفلوج کر سکتی ہے۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے تجویز دی کہ پی سی ٹی ہیڈنگ 0105.1100 کے تحت آنے والے چوزوں پر کسٹمز ڈیوٹی صفر کر دی جائے۔ اسی طرح، سندھ چیمبر آف ایگریکلچر نے تجویز دی کہ درآمد شدہ اور دوبارہ تیار شدہ ٹریکٹروں پر کسٹمز ڈیوٹی 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جائے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اتوار، 15 جون کو دوبارہ اجلاس کرے گی تاکہ کسٹمز ٹیرف اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 پر مزید غور کیا جا سکے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments