آئی ایم ایف شرائط، امریکی ٹیرف اور جنگ کے خدشات کے سائے میں 17.6 کھرب روپے کا بجٹ پیش
- وفاقی اخراجات میں 7 فیصد کی کٹوتی اور دفاعی بجٹ میں 20 فیصد کا اضافہ کیا گیا،
- مالی خسارہ 3.9 فیصد، مہنگائی 7.5 فیصد اور شرح نمو 4.2 فیصد رہنے کا تخمینہ
- ٹیکس محصولات کا ہدف 14.1 کھرب روپے مقرر
- بیرونی خالص وصولیوں کا اندازہ 106 ارب روپے
- "جس جذبے سے ہم نے اپنی خودمختاری کا دفاع کیا، اسی جذبے سے ہمیں معاشی استحکام، ترقی اور عوامی فلاح کو یقینی بنانا ہوگا"
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کے روز قومی اسمبلی میں مالی سال 26-2025 کا وفاقی بجٹ پیش کیا جس کا کل حجم 17.573 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا ہے جو رواں سال کے 2.7 فیصد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ کو ایک ایسی حکمت عملی کی ابتدا قرار دیا جس کا مقصد معیشت کو مسابقتی بنانا، پیداوار میں اضافہ کرنا، برآمدات کو فروغ دینا اور معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے مہنگائی کا ہدف 7.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کے 3.9 فیصد یعنی 5,037 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جو رواں سال کے 5.9 فیصد ہدف سے کم ہے۔ پرائمری بیلنس کو جی ڈی پی کے 2.4 فیصد تک رکھنے کا ہدف ہے، جو کہ رواں سال کے 2 فیصد بجٹ تخمینے اور 2.2 فیصد نظرثانی شدہ ہدف سے زیادہ ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو 14 فیصد تک لے جانا ناگزیر ہو چکا ہے اور قومی اہداف کے حصول کو ایف بی آر کی مکمل اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں قرار دیا۔
ایف بی آر کے لیے 14,131 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف رکھا گیا ہے جو موجودہ مالی سال کے بجٹ تخمینے (12,970 ارب روپے) سے 8.95 فیصد اور نظرثانی شدہ ہدف (11,900 ارب روپے) سے 18.7 فیصد زیادہ ہے۔ نان ٹیکس آمدن کا ہدف 5,147 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو کہ رواں سال کے بجٹ تخمینے 4,845 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ”ہم ٹیکس میں ریلیف ان طبقات کو دے رہے ہیں جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، یعنی تنخواہ دار طبقہ۔“ انہوں نے بتایا کہ مختلف انکم ٹیکس سلیبز میں شرحوں میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشنز میں 7 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ معذور افراد کے لیے خصوصی سفری الاؤنس کو 4,000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 6,000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ مستحق سرکاری ملازمین کے لیے 30 فیصد ڈسپیئرٹی ریڈکشن الاؤنس کی تجویز بھی بجٹ میں شامل ہے۔
وزیر خزانہ نے مسلح افواج کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیوں کے اعتراف میں افسران، جے سی اوز اور جوانوں کو ”اسپیشل ریلیف الاؤنس“ دیا جائے گا، جس کے اخراجات دفاعی بجٹ 26-2025 سے پورے کیے جائیں گے۔ اس ضمن میں مجموعی طور پر 2,550 ارب روپے کا دفاعی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کمانے والے ملازمین پر انکم ٹیکس کی شرح کو 5 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی سے 12 لاکھ روپے کمانے والوں پر ٹیکس 30,000 روپے سے کم ہوکر 6,000 روپے رہ جائے گا۔ سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ روپے کمانے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد جبکہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ روپے کمانے والوں کے لیے 25 فیصد سے کم کرکے 23 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح 1 کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والوں پر سرچارچ میں بھی 1 فیصد کمی کی گئی ہے تاکہ ”برین ڈرین“ کا مسئلہ کم کیا جا سکے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ جولائی سے ٹیکس فائلنگ کے عمل کو آسان بنایا جائے گا۔
کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس ریلیف کے تحت 20 کروڑ سے 50 کروڑ روپے سالانہ آمدن رکھنے والی کمپنیوں پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے تاکہ ٹیکس کی شرح کو معقول سطح پر لایا جا سکے۔
پراپرٹی کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح بھی کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے: 4 فیصد سے 2.5 فیصد، 3.5 فیصد سے 2.5 فیصد، 3 فیصد سے 1.5 فیصد
کمرشل جائیدادوں، پلاٹوں اور گھروں کی منتقلی پر 7 فیصد تک فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) مکمل ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ تعمیراتی شعبے پر بوجھ کم ہو۔ کم لاگت گھروں کے لیے مارگیج قرضوں کو فروغ دینے کی خاطر 10 مرلہ یا 2,000 اسکوائر فٹ کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ فراہم کیا جائے گا۔ حکومت مارٹگیج فنانسنگ کو فروغ دے گی اور اس کے لیے جامع نظام متعارف کرایا جائے گا۔
اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں پراپرٹی کی خریداری پر اسٹامپ ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ گھروں کی قلت کو دور کیا جا سکے۔ وزیر خزانہ نے امید ظاہر کی کہ یہ اقدامات ہاؤسنگ سیکٹر میں تیزی لائیں گے اور معیشت کی ترقی میں اس کا کردار نمایاں ہوگا۔
حکومت نے افقی مساوات (Horizontal Equity) کے فروغ کے لیے سود پر حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے۔
مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں حکومت نے جاری اخراجات کے لیے 16,286 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 5.33 فیصد کم ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 971 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پنشن کی مد میں 1,055 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کی مد میں 1,186 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ٹیکس ریونیو سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ جون 2024 تک ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح صرف 8.8 فیصد تھی، جو مالی سال 2025 کے ابتدائی نو ماہ میں بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گئی ہے اور جون کے اختتام تک 10.4 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ مجموعی حکومتی آمدن 11.6 فیصد ہے، جس میں صوبوں کا 0.8 فیصد حصہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے 1.6 فیصد کا اضافہ کیا ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک تاریخی اضافہ ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ”فائلر“ اور ”نان فائلر“ کا فرق ختم کر دیا جائے گا۔ صرف وہ افراد جو ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کروائیں گے، انہیں بڑے مالیاتی لین دین کی اجازت ہوگی۔
درآمدی سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ مقامی پیداوار کو فروغ دیا جا سکے۔
کاربن لیوی کے حوالے سے بتایا گیا کہ فرنس آئل، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور پیٹرول پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جائے گی، جسے مالی سال 27-2026 میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دیا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد فوسل فیول کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور ماحولیاتی تبدیلی و گرین انرجی پروگرامز کے لیے وسائل کی فراہمی ہے۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کے تحت نفاذ کے اقدامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ بغیر بار کوڈ یا اصلی ٹریک اینڈ ٹریس اسٹیمپ والے اشیاء ضبط کی جائیں گی۔ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ایف بی آر کی محدود موجودگی کے پیش نظر ایف ای ڈی کے اختیارات مخصوص صوبائی افسران کو تفویض کیے جائیں گے، تاکہ نان ڈیوٹی ادا شدہ سگریٹ کی اسمگلنگ کو مؤثر طریقے سے روکا جا سکے۔
نئے ٹیکسیشن اقدامات میں وہ پنشنز بھی شامل ہیں جن کی سالانہ مالیت 1 کروڑ روپے سے زائد ہے — ان پر 5 فیصد انکم ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ نان فائلرز کے لیے کیش نکالنے پر ٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1 فیصد کر دیا گیا ہے۔
850 سی سی تک کی چھوٹی گاڑیوں پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ پیٹرول، ڈیزل اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں یکسانیت لائی جا سکے۔
غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے — ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا سکتے ہیں، جائیداد کی منتقلی پر پابندی ہو گی، اور شدید خلاف ورزی پر کاروباری جگہ سیل اور اشیاء ضبط کی جا سکتی ہیں۔ تاہم، متاثرہ کاروباروں کو 30 دن میں اپیل کا حق حاصل ہو گا۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کو گزشتہ 7 سالوں سے ٹیکس میں چھوٹ حاصل تھی، مگر اب ان پر پانچ سال کے لیے 10 فیصد سے شروع ہونے والی سیلز ٹیکس کی شرح عائد کی جائے گی۔
تاہم، زراعت کو معیشت کا انجن قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ کھاد اور کیڑے مار ادویات پر مزید کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے خبردار کیا کہ سیلز ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف سخت سزائیں دی جائیں گی، تاہم انہیں اپیل کا حق حاصل ہو گا۔ انکم ٹیکس سسٹم کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایک خودکار رسک بیسڈ ایڈجسٹمنٹ نظام متعارف کرایا جائے گا۔
ایسے غیر ملکی سپلائرز جن کے ممالک کے ساتھ پاکستان کا کوئی دوطرفہ ٹیکس معاہدہ نہیں، ان پر 5 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
پیٹرول، ڈیزل اور ہائبرڈ گاڑیاں جنہیں پہلے 18 فیصد سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، اب اس ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔
ای-کامرس یا آن لائن کاروبار اور خریداروں پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت: آن لائن پلیٹ فارمز پر اشیاء یا خدمات بیچنے والے افراد یا کمپنیوں پر 18 فیصد ٹیکس لگے گا۔ آن لائن خریدی گئی اشیاء اور خدمات پر بھی یہی ٹیکس لاگو ہو گا۔ ای کامرس کاروباروں کو ماہانہ لین دین کی تفصیل اور ٹیکس رپورٹس متعلقہ حکام کو جمع کروانا ہوں گی۔
اس کے علاوہ، قرض پر حاصل ہونے والی آمدنی پر 25 فیصد ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے، تاہم شیئرز سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح برقرار رکھی گئی ہے۔
وفاقی حکومت نے مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے دائرہ کار کو بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت اس کے بجٹ میں 21 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جس سے مجموعی رقم بڑھ کر 716 ارب روپے ہو جائے گی۔ اس اضافے کے تحت بی آئی ایس پی کے کفالت پروگرام کو 1 کروڑ خاندانوں تک بڑھایا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ مستحق گھرانوں کو مالی معاونت فراہم کی جا سکے۔
سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی درجہ بندی مکمل کر لی گئی ہے۔ ناقص کارکردگی کے حامل ادارے حکومت کو سالانہ 800 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا رہے تھے، جنہیں اصلاحات کے ذریعے کم کرنے کا ہدف ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) اور روزویلٹ ہوٹل کی نجکاری آئندہ مالی سال میں متوقع ہے، جبکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداوار کنندہ کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کا عمل جاری رہے گا۔ کابینہ نے 10 وفاقی وزارتوں میں عملے کی کمی کی منظوری دے دی ہے اور 45 سرکاری اداروں کو نجکاری یا بندش کے لیے نشان زد کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ڈیٹا انٹیگریشن کے ذریعے 3 لاکھ 90 ہزار ہائی ویلیو نان فائلرز کی نشاندہی کی گئی، جن سے 30 کروڑ روپے کی وصولی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوا، جس سے محصولات 105 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ “پہلی بار آئی ایم ایف نے قانون نافذ کرنے کے ذریعے حاصل شدہ 389 ارب روپے کی آمدن کو تسلیم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منی بجٹ کی باتیں کرنے والوں کے لیے واضح ہے کہ حکومت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجلی کی قیمتوں میں 31 فیصد اور مراعات یافتہ صارفین کے لیے 50 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سستی توانائی کے حصول کی منصوبہ بندی کر لی ہے، مہنگے پاور پلانٹس بند کیے جا رہے ہیں، تیل و گیس کے شعبے میں اصلاحات جاری ہیں اور ترک و دیگر عالمی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ ہیں۔
انہوں نے ریکوڈک منصوبے میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کا ذکر کیا اور ایندھن کی قیمتوں کو مارکیٹ کے مطابق بنانے کا اقدام بھی بتایا تاکہ مسابقت کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ “ریکوڈک کی سونے کی کانیں ہمارا مستقبل ہیں، منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ جنوری میں مکمل ہوئی۔ ہم 71 ارب ڈالر کے کیش فلو، 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 8 ارب ڈالر کی رائلٹی کی توقع کر رہے ہیں، انہوں نے اسے ”گیم چینجر“ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اضافی کسٹمز ڈیوٹیز چار سال میں ختم کر دی جائیں گی، ریگولیٹری ڈیوٹیز پانچ سال میں ختم ہوں گی، جبکہ کسٹمز ایکٹ کے شیڈول 5 کو بھی پانچ سال میں ختم کیا جائے گا۔ کسٹمز ڈیوٹی کو سلیبز میں تقسیم کیا جائے گا، جس کی زیادہ سے زیادہ شرح 15 فیصد ہوگی۔
ٹیرف اصلاحات کو مرحلہ وار نافذ کیا جائے گا تاکہ کاروبار خود کو ایڈجسٹ کر سکیں اور مشکلات میں کمی آئے۔ یہ اصلاحات فارما، آئی ٹی، ٹیلی کام، ٹیکسٹائل اور انجینئرنگ سمیت تمام معاشی شعبوں پر لاگو ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اصلاحات ٹیرف کو انڈونیشیا کی سطح پر لے آئیں گی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ٹی برآمدات اگلے پانچ سال میں 25 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے تین سالہ فنانسنگ پلان شروع کیا ہے، جس کے تحت مئی 2025 تک 95 ہزار ایس ایم ایز کو 300 ارب روپے کی مالی معاونت فراہم کی جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے، جن میں آن لائن نظام، شہری مقدمات کے قوانین میں اصلاحات، میڈیکل کالجز میں کوٹہ اور رقوم بھیجنے والے 15 سرکردہ افراد کو سول ایوارڈ شامل ہیں۔
زرعی شعبے پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 25-2024 میں 2.64 ارب روپے کمائے گئے، جبکہ نیشنل سیڈ پالیسی 2025 اور نیشنل ایگری ٹیکنالوجی پالیسی 2025 منظوری کے قریب ہیں۔
انہوں نے اسپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کو ”بران فیلڈ اور گرین فیلڈ منصوبوں“ کو آگے بڑھانے پر سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ”بین الصوبائی اور وفاقی ربط میں بہتری آئی ہے۔“
وزیر خزانہ نے پانی کے ذخائر میں اضافے اور پانی کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت انہوں نے 1 کروڑ ایکڑ فٹ ذخیرہ بڑھانے، پانی کے ضیاع میں 35 فیصد کمی اور پانی کے استعمال میں 30 فیصد بہتری کے اہداف کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 133 ارب روپے مختلف منصوبوں کے لیے، 34 ارب روپے سرمایہ کاری کے لیے اور 15 اہم اسکیموں کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سستی توانائی کی فراہمی حکومت کی ترجیح ہے۔ توانائی کے شعبے کے لیے 47 اسکیموں کے تحت 90.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں تربیلا 5ویں توسیعی منصوبے کے لیے 84 کروڑ روپے، داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے 10.9 ارب روپے، 884 میگاواٹ سوکی کناری ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے 3.5 ارب روپے اور مہمند ہائیڈل ڈیم کے لیے 35.7 ارب روپے شامل ہیں۔
دیگر توانائی منصوبوں کے لیے مختص رقوم میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی گرڈ اسٹیشن کے لیے 4.4 ارب روپے، قائداعظم بزنس پارک کے لیے 1.1 ارب روپے، 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرز کی پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کے لیے 1.6 ارب روپے، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کے ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر کے لیے 2.9 ارب روپے، ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کے لیے 1.8 ارب روپے، حیدرآباد کے لیے 1.9 ارب روپے، پشاور کے لیے 2.4 ارب روپے، واپڈا کی کلین الیکٹریسٹی اسکیم کے لیے 67.2 ارب روپے، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی پانچ توانائی اسکیموں کے لیے 3 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے گرڈز کے لیے 1.2 ارب روپے شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ زرعی شعبے میں ”جینیاتی بہتری اور فصلوں کی کٹائی کے بعد کے مراحل“ پر توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے خرچے پر 1,000 زرعی گریجویٹس کو چین بھیجا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے مویشیوں کی پانچ نئی اسکیموں کا اعلان بھی کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے دیے جائیں گے، جن میں سے 38.5 ارب روپے صوبوں کو دیے جائیں گے۔
آرنگزیب نے کہا کہ آئندہ مالی سال 2025-26 کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے مجموعی طور پر 164 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 48، 48 ارب روپے، جبکہ ضم شدہ اضلاع کے لیے 68 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وفاقی حکومت نے سالانہ ترقیاتی منصوبے (اے ڈی پی) کے تحت بلاک مختص رقوم میں آزاد جموں و کشمیر کے لیے 32 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 22 ارب اور خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع و سابقہ فاٹا کے 10 سالہ منصوبے کے لیے 65 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، وزیراعظم کے خصوصی پیکج کے تحت آزاد کشمیر کے لیے 5 ارب اور گلگت بلتستان کے لیے 4 ارب روپے بھی مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے ایک نئی الیکٹرک وہیکل (ای وی) پالیسی متعارف کرائی ہے، جس کا مقصد دو اور تین پہیوں والی برقی گاڑیوں کو فروغ دینا ہے تاکہ روایتی پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کا متبادل پیش کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ماحولیاتی آلودگی کم کرنے اور درآمدی تیل پر انحصار گھٹانے کی کوشش کا حصہ ہے۔
انہوں نے پالیسی کی اہم خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں الیکٹرک دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر انجن کی طاقت کے حساب سے مختلف شرحوں پر لیوی عائد کی جائے گی، جو مقامی فروخت اور درآمدات دونوں پر لاگو ہو گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments