پاکستان الیکٹریسٹی ریویو 2025، جو حال ہی میں اسلام آباد میں قائم توانائی تھنک ٹینک رینیوایبلز فرسٹ کی جانب سے جاری کیا گیا، میں مالی سال 2024 کے دوران پاکستان کے پاور سیکٹر میں اثرانداز ہونے والے اہم رجحانات اور چیلنجز کا جامع تجزیہ پیش کیا گیا۔
رپورٹ نے مالی سال 2024 کو ایک تبدیلی کا سال قرار دیا ہے، جس میں چین سے سولر پی وی پینلز کی ریکارڈ درآمدات کی گئیں۔ اس درآمد میں اضافے نے ملک بھر میں روف ٹاپ سولر تنصیبات کی تیز رفتار ترقی کو جنم دیا، جس میں نیٹ میٹرڈ اور بیکینڈ میٹر دونوں شامل ہیں۔ مارچ 2025 تک پاکستان نے 4.9 گیگا واٹ نیٹ میٹرڈ سولر کی صلاحیت نصب کی جو تقسیم شدہ قابل تجدید توانائی میں مضبوط رفتار کی نشاندہی کرتی ہے۔
تاہم، بیکینڈ میٹر کی بڑی تعداد میں انسٹالیشنز کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل نصب شدہ صلاحیت شاید کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
پاکستان کی کل نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت مالی سال 2024 میں 46.2 گیگا واٹ تک پہنچ گئی، جس میں تین نئے یوٹیلٹی اسکیل سولر پلانٹس کا اضافہ کیا گیا، اس سے یوٹیلٹی اسکیل رینیو ایبلز کا پیداوار مکس میں حصہ 6 فیصد سے بڑھ کر7 فیصد ہوگیا۔
ان اضافوں کے باوجود قابل تجدید ذرائع (ہوا، سولر، اور بیگاس) کا مجموعی طور پر بجلی پیدا کرنے میں حصہ 5 فیصد پر جوں کا توں رہا، جو متوقع اہداف سے خاصا کم ہے اور 2030 تک 30 فیصد قابل تجدید توانائی کے حصے کے ہدف سے دور ہے۔ مالی سال 2024 میں کل بجلی کی پیداوار 137 ٹی واٹ گھنٹے رہی۔
نقل و حمل میں رکاوٹیں اور اوورلوڈڈ گرڈ انفرااسٹرکچر نے مؤثر توانائی منتقلی میں خلل ڈالا، خاص طور پر جنوبی علاقوں سے توانائی کی زیادہ طلب والے شمالی علاقوں میں۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے سسٹم آپریٹر کو کم لاگت والی پلانٹس سے بجلی کی ترسیل کم کرنے پر مجبور ہونا پڑا، اور اس کے بجائے مہنگی آر ایل این جی بیسڈ پیداوار پر زیادہ انحصار کیا گیا۔
اس کے نتیجے میں توانائی خریداری کی قیمت 1.3 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی، جس میں صرف آر ایل این جی کی پیداوار کا حصہ 568 بلین روپے تھا، جو کل توانائی خریداری کا تقریباً 51 فیصد ہے۔ آر ایل این جی پر مبنی پلانٹس نے اس سال 24 ٹی ڈبلیو ایچ پیداوار کی، جو ریگولیٹر کی پیش گوئیوں سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ قومی گرڈ سے بجلی کی فروخت میں کمی آئی ہے، جو کہ دوسرے سال بھی جاری رہنے والی نیچے کی طرف رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ مجموعی فروخت میں 3 فیصد کمی آئی، جس میں صنعتی شعبے میں سب سے زیادہ کمی دیکھنے کو ملی۔ صنعتی استعمال مالی سال 23 میں 31 ٹی ڈبلیو ایچ سے کم ہو کر مالی سال 24 میں 28 ٹی ڈبلیو ایچ تک پہنچ گیا، جو کہ سالانہ 11 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کمی معیشتی چیلنجز کے ساتھ ساتھ اس شعبے کے مزید مسابقتی توانائی ذرائع کی طرف منتقلی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
مالیاتی پہلو پرمالی سال 24 میں کیپیسیٹی ادائیگیاں 1.9 ٹریلین روپے تک پہنچ گئیں، جو سالانہ 46 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ تیز رفتار اضافہ زیادہ تر مالی سال 23 میں نئے کوئلے اور آر ایل این جی پاور پلانٹس کے کمیشن ہونے سے منسلک ہے، جو عام طور پر زیادہ متعین اخراجات پر مبنی ہوتے ہیں، خاص طور پر جب ان کے ابتدائی قرض کی ادائیگی کے ادوار ہوتے ہیں۔ جب ایسے پلانٹس اپنی مکمل صلاحیت سے کم کام کرتے ہیں، تو استعمال نہ ہونے والی صلاحیت کی قیمت پھر بھی صارفین پر زیادہ ٹیرف کے ذریعے منتقل ہوتی ہے، جس سے شعبے کی مالی استحکام پر مزید دباؤ پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، بجلی کی پیداوار میں کمی نے توانائی کی خریداری کی قیمت میں سالانہ 7 فیصد کمی کا سبب بنی—جس سے شعبے کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے درمیان ایک معمولی راحت ملی۔
نیپرا کی جانب سے ایندھن کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے بروقت نفاذ کے باوجود، شعبے کا گردشی قرضہ بڑھتا رہا۔ مالی سال 24 کے آخر تک یہ 2.4 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 3.6 فیصد کا اضافہ ہے، اس میں موجودہ قرض میں 83 ارب کا اضافہ ہوا، جب کہ مالی سال 23 میں یہ اضافہ 2.6 فیصد ( 58 ارب روپے) تھا۔
مجموعی طور پر پاکستان الیکٹریسٹی ریویو 2025 شعبے کے جاری ڈھانچوں کی مشکلات کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ پیش کرتا ہے جبکہ ترقی کے شعبوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف حقیقت پسندی کا آئینہ ہے بلکہ پالیسی سازوں کے لیے ایک رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے جو ملک کی پیچیدہ توانائی منتقلی کے راستے پر چل رہے ہیں۔
Comments