چینی ساختہ پاکستانی اور فرانسیسی ساختہ بھارتی طیاروں کے درمیان فضائی جھڑپ کو دنیا بھر کی افواج بغور دیکھ رہی ہیں تاکہ مستقبل کے تنازعات میں برتری کے لیے سبق حاصل کیا جا سکے۔
روئٹرز کو دو امریکی حکام نے بتایا کہ بدھ کو ایک چینی ساختہ پاکستانی لڑاکا طیارے نے کم از کم دو بھارتی فوجی طیارے مار گرائے، جو بیجنگ کے جدید طیارے کی ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
یہ فضائی تصادم عسکری ماہرین کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ پائلٹس کی مہارت، طیاروں کی کارکردگی اور فضاء سے فضاء میں مار کرنے والے میزائلوں کی صلاحیتوں کا جائزہ لے سکیں اور اپنی فضائی افواج کو بہتر طور پر جنگ کے لیے تیار کر سکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ہتھیاروں کے عملی استعمال کا تجزیہ چین، امریکہ اور یورپ کے ممالک میں بھی کیا جائے گا، جہاں حکومتیں تائیوان یا انڈو پیسیفک خطے میں کسی ممکنہ تنازع کی تیاری کر رہی ہیں۔
ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، رائٹرز کو بتایا کہ پاکستانی فضائیہ نے چینی ساختہ جے-10 طیارے سے بھارتی لڑاکا طیاروں پر فضاء سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل فائر کیے۔
سوشل میڈیا پر چینی پی ایل-15 میزائل کی کارکردگی اور یورپی گروپ ایم بی ڈی اے کے بنائے گئے ریڈار گائیڈڈ ”میٹیور“ میزائل کے درمیان موازنہ زیربحث رہا۔
ان ہتھیاروں کے استعمال کی باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی۔
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سینئر فیلو ڈگلس بیری نے کہا کہ چین، امریکہ اور یورپی ممالک کی فضائی جنگی کمیونٹیز اس واقعے سے جتنی معلومات حاصل ہو سکیں گی، انہیں حاصل کرنے میں گہری دلچسپی رکھیں گی—مثلاً حکمت عملی، طریقہ کار، کون سا ہتھیار استعمال ہوا، کیا کامیاب ہوا اور کیا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ چین کا سب سے مؤثر ہتھیار مغرب کے سب سے مؤثر ہتھیار کے مقابل آیا ہو—اگر واقعی ایسا ہوا۔
بیری کے مطابق فرانس اور امریکہ جیسے ممالک بھی بھارت سے اس جھڑپ کی تفصیلات حاصل کرنے کے خواہاں ہوں گے۔
ایک دفاعی صنعت سے وابستہ اہلکار نے کہا کہ پی ایل-15 ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔ امریکی افواج اس پر خاص توجہ دیتی ہیں۔“
رفال بنانے والی کمپنی داسالٹ ایوی ایشن نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا جبکہ ایم بی ڈی اے تک فرانسیسی تعطیل کی وجہ سے فوری رسائی ممکن نہ ہو سکی۔
اہم پہلو غیرواضح
مغربی تجزیہ کاروں اور صنعت سے وابستہ ذرائع کے مطابق کئی اہم تفصیلات تاحال واضح نہیں—مثلاً میٹیور میزائل استعمال کیا گیا یا نہیں، اور پائلٹس کو کس نوعیت کی تربیت دی گئی تھی۔ دفاعی کمپنیاں تکنیکی کارکردگی اور جنگی حالات کے فرق کو الگ کرنے کی کوشش کریں گی۔
کیپیٹل الفا پارٹنرز کے بائرن کالن نے کہا کہ یہ ضرور تجزیہ کیا جائے گا کہ کیا مؤثر رہا اور کیا نہیں، لیکن ساتھ ہی جنگی دھند بھی ایک حقیقت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین جنگ سے امریکی دفاعی کمپنیاں اپنے ہتھیاروں کی کارکردگی پر مسلسل فیڈبیک حاصل کر رہی ہیں، اور بھارت، چین اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ایل -15 متوقع کارکردگی سے بہتر کام کر رہا ہے تو چین کو یقیناً یہ جان کر خوشی ہوگی۔
ایک مغربی ملک کے دفاعی صنعت کار نے، جو میٹیور میزائل چلاتا ہے، کہا کہ آن لائن گردش کرتی ایک تصویر میں میزائل کا ”سیکر“ ممکنہ طور پر کسی ناکام حملے کا جزو ہے۔
پاکستان کے پاس پی ایل -15 میزائل کا کون سا ورژن ہے—چینی فضائیہ والا اصل یا 2021 میں جاری شدہ ایکسپورٹ ورژن—اس پر متضاد اطلاعات موجود ہیں۔
بیری کے مطابق امکان ہے کہ پاکستان کے پاس ایکسپورٹ ورژن ہی ہے۔
ایک مغربی ذریعہ پی ایل-15 کی راکٹ انجن والی طویل رینج کی صلاحیتوں سے متعلق دعووں کو مسترد کرتا ہے، تاہم یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کی صلاحیتیں توقع سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔
میٹیور کی اصل رینج باضابطہ طور پر شائع نہیں کی گئی۔
ان تجزیوں سے پی ایل -15 کی وہ اہمیت ظاہر ہوتی ہے جس نے چین کو سوویت طرز کی پرانی ٹیکنالوجی سے آگے نکلتے ہوئے جدید ہتھیار سازی میں خود کفیل کر دیا ہے۔
امریکہ نے لاک ہیڈ مارٹن کے ذریعے اے آئی ایم-260 میزائل تیار کرنا شروع کیا ہے، جس کا مقصد پی ایل-15 کی صلاحیتوں کا توڑ تلاش کرنا ہے۔
یورپی ممالک میٹیور کے درمیانی عمر کے اپ گریڈ پر غور کر رہے ہیں—جس میں ”جینز“ کے مطابق، انجن اور گائیڈنس سسٹم شامل ہو سکتے ہیں—لیکن ماہرین کے مطابق اس میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بوئنگ کو جدید ترین امریکی لڑاکا طیارہ تیار کرنے کا ٹھیکہ دیا، جس میں اسٹیلتھ، جدید سینسرز اور جدید انجن شامل ہوں گے۔
Comments