بھارتی پولیس کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 26 سیاح ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے۔ واقعے کو گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران اس نوعیت کا بدترین حملہ قرار دیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ حملہ خوبصورت پہاڑی علاقے پہلگام میں ہوا ہے جو سیاحوں میں بے حد مقبول ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری شامل ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کے اپنے دو روزہ دورے کو مختصر کرتے ہوئے بدھ کی صبح نئی دہلی واپس روانہ ہوگئے۔ بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے بھی اپنے امریکہ اور پیرو کے دورے کو مختصر کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہونے کے لیے واپس آرہی ہیں۔

وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ نریندر مودی نے ائرپورٹ پر قومی سلامتی کے مشیر ، وزیر خارجہ اور دیگر سینئر عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کی اور مقامی وقت کے مطابق 12:30 بجے سیکورٹی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ۔

یہ حملہ مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جنہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے اور علاقے میں امن و ترقی لانے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔

دوسری جانب کشمیر ریزسٹنس نامی ایک غیر معروف گروپ نے سوشل میڈیا پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ گروپ کی جانب سے جاری پیغام میں اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ خطے میں 85 ہزار سے زائد غیر مقامی افراد کو آباد کیا گیا ہے جس سے ڈیموگرافک تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔

بدھ کوایک تازہ بیان میں گروپ نے کہا کہ جن افراد کو نشانہ بنایا گیا وہ عام سیاح نہیں تھے۔ وہ ہندوستانی سیکورٹی ایجنسیوں سے منسلک تھے۔

گروپ کے مطابق یہ معمولی سیاحتی گروپ نہیں تھا بلکہ ایک خفیہ ایجنسی تھی جسے تحقیق کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، یہ حملہ نہ صرف دہلی بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی ایک تنبیہہ ہونا چاہیے جو دہلی کی مشکوک حکمت عملی کی حمایت کرتے ہیں۔

دو سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ حملے کے فورا بعد سیکڑوں سکیورٹی فورسز پہلگام کے علاقے میں پہنچ گئیں اور وہاں کے جنگلات میں بڑے پیمانے پر کومبنگ آپریشن شروع کردیا۔

پاکستان نے حملے میں سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش ہے۔ ہم ہلاک شدگان کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔

کشمیر میں شٹرڈاؤن

درجنوں مقامی تنظیموں نے بدھ کو سیاحوں پر حملے کے خلاف علاقے میں ہڑتال کی اپیل کی۔

بہت سی اسکولوں نے بھی احتجاجاً کلاسز معطل کر دیں۔ عہدیداروں نے بتایا کہ فضائی کمپنیاں علاقے کے موسم گرما کے دارالحکومت سرینگر سے اضافی پروازیں چلا رہی ہیں کیونکہ سیاح علاقے سے باہر نکل رہے ہیں۔

سری نگر کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑنے والی مرکزی شاہراہ شدید بارشوں کی وجہ سے متاثر ہو گئی تھی اور مرمت کے لیے بند کر دی گئی تھی، جس کی وجہ سے پروازوں کی مانگ بڑھ گئی۔

ٹیلی وژن میں سیاحوں کو اپنے بیگ ٹیکسیوں میں لے جاتے ہوئے اور سری نگر کے ایک ہوٹل سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

نئی دہلی کے ایک سیاح سمیر بھاردواج نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا ایسی حالت میں ہم اپنا سفر کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی حفاظت کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ ہم صرف اسی صورت میں سفر کرسکتے ہیں جب ہمارے دماغ پرسکون ہوں لیکن یہاں ہر کوئی تناؤ میں ہے۔ اس لیے ہم سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔

وزیر ہوا بازی رام موہن نائیڈو کنجاراپو کے دفتر نے کہا کہ سرینگر سے چار خصوصی پروازوں کا انتظام کیا گیا ہے جن میں سے دو دہلی اور دو ممبئی کے لئے ہیں۔

نائیڈو نے تمام ائرلائن آپریٹرز کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس بھی منعقد کیا اور انہیں ہدایت دی کہ کرایوں کو معمول کی سطح پر برقرار رکھا جائے، تاکہ اس نازک وقت میں کسی مسافر پر اضافی بوجھ نہ پڑے۔

یاد رہے کہ بھارت نے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو دو وفاقی انتظامی علاقوں — جموں و کشمیر اور لداخ — میں تقسیم کردیا تھا۔

اس اقدام کے تحت مقامی حکام کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ غیر مقامی افراد کو ڈومیسائل کے حقوق جاری کریں، جس سے انہیں علاقے میں ملازمتیں حاصل کرنے اور زمین خریدنے کی اجازت مل گئی۔

کشمیر میں سیاحوں کو نشانہ بنانے والے حملے کم ہی ہوتے ہیں۔ آخری واقعہ جون 2024 میں پیش آیا تھا جب ایک حملے کے نتیجے میں ہندو یاتریوں کو لے جانے والی بس گہری کھائی میں جاگری، جس میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 33 زخمی ہو گئے تھے۔

Comments

200 حروف