جمعے کے روز سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رواں مال سال کی پہلی سہ ماہی میں بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 5.4 فیصد تک سست روی کا شکار ہوچکی ہے جبکہ یہ گزشتہ سہ ماہی کی 6.7 فیصد کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے۔

جمعے کو جاری اعداد وشمار دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو عالمی سطح پر تیزی سے بڑھتی ہوئی بڑی معیشتوں میں شامل کرتے ہیں تاہم یہ گزشتہ سال کے دوران ہونے والی تیز رفتار ترقی میں کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔

ان اعداد و شمار سے ریزرو بینک آف انڈیا پر دباؤ پڑ سکتا ہے کہ وہ شرح سود کو 18 ماہ سے زیادہ عرصے تک 6.50 فیصد پر مستحکم رکھنے کے بعد کم کرے۔

ترقی کے تازہ ترین اعداد و شمار اب بینک کو اس سال شرحوں میں کمی شروع کرنے کیلئے راغب کرسکتے ہیں۔

سالانہ بنیادوں پر مجموعی مقامی پیداوار زیادہ تر تجزیہ کاروں کے اندازوں سے بہت کم رہی۔

گزشتہ برس اپریل سے جون تک کی سہ ماہی کے دوران بھارتی معیشت میں سالانہ بنیادوں پر6.7 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

ایک سرکاری بیان میں توقع سے کم نمو کے اعداد و شمار کی وجہ سست پیدوار اور کان کنی سرگرمیاں بتائی گئی ہیں۔

معاشی نمو میں اعتدال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے بھی ناپسندیدہ خبر ہے، جو اس سال کے عام انتخابات میں واضح مینڈیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے اسے حکومت کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں پر انحصار کرنا پڑا۔

اس کے دو سب سے بڑے اتحادیوں نے مبینہ طور پر اپنی ریاستوں میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لئے اربوں ڈالر کی مالی امداد طلب کی ہے۔

مودی حکومت نے انتخابات کے بعد اپنے بجٹ میں 24 ارب ڈالر روزگار اور تربیت پر خرچ کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ ناہموار معاشی ترقی سے نمٹا جاسکے اور ناراض رائے دہندگان کو خوش کیا جاسکے۔

بھارت میں خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مودی کی سیاسی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے اور مرکزی بینک کو افراط زر کے بارے میں دوٹوک موقف اختیار کرنے سے بھی روکا ہے۔

Comments

200 حروف