امریکا میں صدارتی انتخاب کی مہم آخری ہفتے میں داخل
- سات کروڑ سے زائد امریکیوں نے منگل کے روز ہونے والے انتخابات سے قبل پہلے ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے جو 2020 ء کے کل ووٹوں کا 45 فیصد ہے
- رائے شماریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور ہیریس برابر ہیں فتح اس بات پر منحصر ہے کہ کون ایسی سات ریاستوں میں کامیابی حاصل کرتا ہے جہاں دونوں جماعتوں کے ووٹ تقریبا یکساں ہیں
امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور ان کے انتخابی حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو تمام ایسی ریاستوں میں ایک دوسرے کیخلاف سخت زبان استعمال کی ہے جہاں دونوں جماعتوں کے ووٹوں کا تناسب یکساں قرار دیا جارہا ہے۔ یہ بیانا دونوں شخصیات کی جانب سے وسکونسن کے سب سے بڑے شہر میں انتخابی ریلیوں کیلئے جمع ہونے سے پہلے دیے گئے جو ہنگامہ خیز صدارتی انتخابات کے آخری دنوں میں ایک ڈرامائی منظر پیش کرتا ہے۔
امریکی نائب صدر کملا ہیریس اور انتخابی حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو متنازعہ ریاستوں میں ایک دوسرے پر تلخ جملوں کا تبادلہ کیا، اس کے بعد وہ وسکونسن کے سب سے بڑے شہر میں متبادل ریلیوں کیلئے جمع ہوئے جو ایک ہنگامہ خیز صدارتی انتخابات کے آخری دنوں میں ایک ڈرامائی منظر پیش کرتا ہے ۔
پانچ نومبر کو ہونے والے انتخابات سے قبل سیاسی گرما گرمی عروج پر پہنچ گئی ہے، ٹرمپ کو ہیرس کے ایک ہائی پروفائل ریپبلکن حامی کو نشانہ بنانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
منگل کو ہونے والے انتخابات سے قبل 7 کروڑ سے زائد امریکی پہلے ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں جو 2020 ء کے کل ووٹوں کا 45 فیصد ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ٹرمپ اور ہیرس برابر ہیں اور جیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ سات سوئنگ ریاستوں میں کون جیتتا ہے۔
دونوں نے پورے دن انتخابی مہم کا انعقاد کیا، ہیرس نے ریلیوں میں شرکت کی اور وسکونسن میں ایک یونین ہال کا دورہ کیا جبکہ ٹرمپ نے پڑوسی میدان جنگ مشی گن میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشی گن کے شہر وارن میں اپنے حامیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم گزشتہ چار سال سے جو کچھ بھی لڑ رہے ہیں وہ اگلے چار دنوں تک جاری رہے گا۔‘
بعد ازاں جمعے کو ملواکی میں حریفوں نے میلوں کے فاصلے پر ریلی نکالی، جہاں ٹرمپ نے کہا: ’مجھے آپ کا پیسہ نہیں چاہیے، مجھے آپ کا ووٹ چاہیے!‘
سابق صدر اسی مقام پر خطاب کر رہے تھے جہاں انہوں نے موسم گرما میں ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کی تھی اور پنسلوانیا میں قتل کی کوشش سے بچنے کے چند دن بعد فاتحانہ تقریر کی تھی۔
ہیرس جو جولائی میں صدر جو بائیڈن کی ذہنی شدت میں کمی کے خدشے کے پیش نظر میدان سے باہر ہونے کے بعد دوڑ میں شامل ہوئی تھیں، ان کے ساتھ اسٹار ریپر کارڈی بی بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
کارڈی بی نے امریکہ کی ممکنہ پہلی خاتون صدر کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجمع سے پوچھا کہ کیا ہم تاریخ رقم کرنے کے لیے تیار ہیں؟
اس سے پہلے، ہیریس نے ٹرمپ کی سرزنش کی کہ انہوں نے اپنے ایک اہم ری پبلکن ناقد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ”تشدد آمیز زبان“ استعمال کی۔
ہیریس نے رپورٹروں کو بتایا کہ ٹرمپ نے ”سابق نمائندہ لیز چینی پر بندوقیں مرکوز کرنے کا مشورہ دیا ہے“۔
”یہ ناقابل قبول ہونا چاہیے۔ کوئی بھی… جو اس قسم کی تشدد آمیز زبان استعمال کرتا ہے، وہ واضح طور پر صدر بننے کے لیے نااہل اور غیر اہل ہے۔“
’حقیقی محب وطن‘ ٹرمپ نے اپنے سب سے متنازعہ نکات پر زور دیا ہے، یہ کوشش کرتے ہوئے کہ اپنے حامیوں کو بڑے پیمانے پر ووٹ ڈالنے کے لیے اُبھاریں۔
پنسلوانیا کے ساتھ ساتھ مشی گن اور وسکونسن ڈیموکریٹس کی مڈ ویسٹرن ”نیلی دیوار“ کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ خطہ کسی بھی طرف جا سکتا ہے – اور اس کے ساتھ صدارت بھی۔
جیت کا دوسرا راستہ سن بیلٹ سوئنگ ریاستوں سے گزر سکتا ہے، جہاں ٹرمپ اور ہیرس دونوں نے جمعرات کو انتخابی مہم چلائی تھی۔
ایریزونا میں ٹرمپ نے جمعرات کو بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ پنسلوانیا میں انتخابات میں دھاندلی ہو رہی ہے جس سے ان توقعات کو تقویت ملی ہے کہ اگر وہ ہار گئے تو وہ نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔
’جنک سائنس‘
ٹرمپ نے خاص طور پر جمعے کو ڈیئربورن، مشی گن میں انتخابی مہم چلائی، جہاں ملک کی سب سے بڑی عرب امریکی برادری رہتی ہے، جہاں غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر غم و غصے نے بہت سے مسلمانوں کو ڈیموکریٹک پارٹی سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔
ایک حلال ریستوراں میں اپنے حامیوں سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ اگر وہ منتخب ہوتے ہیں تو ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنے والے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر صحت کی دیکھ بھال میں ’بڑا کردار‘ ادا کریں گے۔
ہیرس نے کینیڈی کو ”جنک سائنس اور پاگل سازشی نظریات“ کا پروموٹر قرار دیا۔
مشی گن میں چند منٹوں کے لیے ٹرمپ کی تقریر نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں روایتی پرجوش تقریر کا اشارہ دیا۔
انہوں نے وارن میں کہاکہ میں آپ سے دوبارہ بڑے خواب دیکھنے کے لئے کہہ رہا ہوں.
لیکن انہوں نے فوری طور پر امیگریشن کے بارے میں ایک مذموم موقف اختیار کیا اور بائیڈن-ہیرس کی معیشت کو ”مکمل تباہی“ قرار دیا۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت کم بے روزگاری اور مضبوط نمو کے ساتھ مضبوط حالت میں ہے۔
Comments