دنیا

نیتن یاہو کے مجوزہ دورہ امریکا سے قبل دوحہ میں غزہ جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے

  • اسرائیلی جارحیت نے غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ سے زائد افراد کے لیے سنگین انسانی بحران پیدا کر دیا ہے
شائع July 6, 2025

اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے بالواسطہ مذاکرات اتوار کو دوحہ میں دوبارہ شروع ہونے جا رہے ہیں، جو اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے مجوزہ دورے سے قبل ہوں گے۔

نیتن یاہو نے قبل ازیں اعلان کیا تھا کہ وہ ایک وفد قطر بھیج رہے ہیں، جو اس تنازع میں ایک کلیدی ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی مسودے پر حماس کا ردعمل ”ناقابلِ قبول“ شرائط پر مشتمل ہے۔

اسرائیلی جارحیت کو ختم کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے تناظر میں، جو اب بائیسویں ماہ میں داخل ہو چکی ہے، نیتن یاہو پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے، جو اس جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر چکے ہیں۔

حماس سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی عہدیدار، جو مذاکراتی عمل سے باخبر ہیں، نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ عالمی ثالثوں نے حماس کو مطلع کیا ہے کہ ”بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور آج دوحہ میں شروع ہو رہا ہے۔“

مذاکرات کا مرکز ممکنہ جنگ بندی کے خدوخال ہوں گے، جن میں یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے، جبکہ حماس زخمیوں کے انخلا کے لیے غزہ کے رفح بارڈر کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ بھی پیش کرے گی۔

عہدیدار کے مطابق حماس کا وفد، جس کی قیادت اس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیّہ کر رہے ہیں، دوحہ میں موجود ہے۔ اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیلی وفد بھی دوپہر کے وقت قطر روانہ ہو گیا ہے۔

نیتن یاہو نے اتوار کی شام 5 بجے (عالمی وقت کے مطابق دن کے 2 بجے) امریکہ روانگی سے قبل اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ سے ملاقات کی، جس میں غزہ کی صورتحال اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

تل ابیب میں ہفتہ کو مظاہرین نے معمول کی ہفتہ وار ریلی نکالی، جس میں غزہ میں قید یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یرغمال غالی اور زیو برمن کی خالہ، مکابیت مایر، نے ایک ایسے معاہدے کی اپیل کی ”جو سب کی جان بچا سکے۔“

بس بہت ہو چکا

مذاکرات سے قریبی تعلق رکھنے والے دو فلسطینی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ پیش کردہ مسودے میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز شامل ہے، جس کے دوران حماس 10 زندہ یرغمالیوں اور بعض لاشوں کو اسرائیلی قیدیوں کے بدلے رہا کرے گی۔

تاہم ذرائع کے مطابق حماس نے اسرائیلی انخلا کے لیے مخصوص شرائط، جنگ بندی کے دوران دوبارہ لڑائی نہ چھڑنے کی ضمانتیں اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں امدادی سامان کی تقسیم کی بحالی کا مطالبہ بھی پیش کیا ہے۔

میدانِ جنگ میں غزہ کی شہری دفاعی ایجنسی نے اتوار کو بتایا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 14 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔

غزہ کی شہری دفاعی ایجنسی کے مطابق اتوار کی صبح سویرے اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ شہر کے شیخ ردوان علاقے میں 10 افراد شہید ہوئے۔ اے ایف پی کی تصاویر میں مقامی فلسطینیوں کو ننگے ہاتھوں ملبے میں زندہ افراد کی تلاش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

غزہ میں میڈیا پر پابندیوں اور متعدد علاقوں تک رسائی میں مشکلات کے باعث اے ایف پی آزادانہ طور پر شہادتوں یا دیگر تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکا۔

اس بارے میں جب اے ایف پی نے اسرائیلی فوج سے رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ مخصوص حملوں پر تبصرہ نہیں کر سکتی، جب تک درست جغرافیائی کوآرڈینیٹس فراہم نہ کیے جائیں۔

شیخ ردوان کے رہائشی اسامہ الحنّاوی نے اے ایف پی کو بتایا کہ میرے خاندان کے باقی افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ“ہم روزانہ نوجوانوں، خاندانوں اور بچوں کو کھو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ کافی خون بہہ چکا ہے۔

جنگ بندی کے لیے حالیہ کوششیں بار بار ناکام ہو چکی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ حماس کے اس مطالبے کو اسرائیل کی جانب سے مسترد کرنا ہے کہ جنگ بندی مستقل ہونی چاہیے۔

آٹے کے لیے موت

اسرائیلی جارحیت نے غزہ کی پٹی میں موجود دو ملین سے زائد افراد کے لیے سنگین انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔

جنوبی غزہ کے شہر خان یونس سے تعلق رکھنے والی کریمہ الراس نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ جلد جنگ بندی کا اعلان ہو تاکہ مزید امداد پہنچ سکے۔

انہوں نے کرب ناک انداز میں کہا کہ لوگ آٹے کے لیے مر رہے ہیں۔

مئی کے آخر میں جب اسرائیل نے دو ماہ سے زائد عرصے کے محاصرے میں کچھ نرمی کی، تو ایک امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ تنظیم ”غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن“ (جی ایچ ایف) نے خوراک کی تقسیم کی ذمہ داری سنبھالی۔

تاہم اقوامِ متحدہ کی ایجنسیاں اور بڑی بین الاقوامی امدادی تنظیمیں جی ایچ ایف سے تعاون کرنے سے انکار کر چکی ہیں، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ ادارہ اسرائیلی فوجی مقاصد کے مطابق بنایا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق جی ایچ ایف کے مراکز پر خوراک کے انتظار میں 500 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔

غزہ کی حماس کے زیرانتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل اب تک 57,418 افراد کو شہید کر چکا ہے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اقوامِ متحدہ ان اعداد و شمار کو قابلِ اعتبار تسلیم کرتا ہے۔

Comments

200 حروف