جب مرکزی بینکوں کا مرکزی بینک خطرے کی گھنٹی بجائے تو مالیاتی منڈیوں کو ضرور توجہ دینی چاہیے۔ بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس (بی آئی ایس) — جو عموماً مبالغہ آرائی سے گریز کرتا ہے — نے ایک دوٹوک انتباہ جاری کیا ہے: عالمی معیشت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ اور اس بار معاملہ محض کاروباری چکروں یا وقتی مالیاتی قلت تک محدود نہیں، بلکہ یہ ان گہرے ساختی کمزوریوں سے متعلق ہے جو عالمی معاشی مضبوطی کے بچے کچے حصے کو بھی چکناچور کر سکتی ہیں۔

خطرات ہر طرف منڈلا رہے ہیں۔ عالمی قرضے کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے، پیداوار میں جمود ہے، سپلائی چینز اب بھی منقسم ہیں اور مرکزی بینک تاحال کووڈ کے بعد افراطِ زر کی لہر کے جھٹکوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈالر کی کمزوری اور قرض میں جکڑی حکومتوں کی بڑھتی ہوئی شرحِ سود کے لیے حساسیت، اس بے یقینی میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ اگرچہ گزشتہ مہینوں میں منڈیوں میں بہتری دیکھی گئی ہے، لیکن بی آئی ایس اُن دراڑوں کی نشاندہی کر رہا ہے جو سطح کے نیچے موجود ہیں—نہ کہ اُن تکنیکی اشاریوں کی جو بظاہر اوپر نظر آتے ہیں۔

اس تنبیہ کو منفرد بنانے والی بات یہ ہے کہ یہ غیر معمولی وضاحت کے ساتھ بتاتی ہے کہ اگر فوری طور پر راہِ درست اختیار نہ کی گئی تو دنیا کس طرف جا رہی ہے۔ بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس کا کہنا ہے کہ معاشی لچک محض اقتصادی عوامل کی وجہ سے نہیں، بلکہ پالیسی کی ناکامیوں کی وجہ سے ختم ہو رہی ہے۔طویل عرصے تک مالیاتی بے احتیاطی، پیداوار میں کم سرمایہ کاری، اور مانیٹری اسٹیملس پر ضرورت سے زیادہ انحصار نے ایک ناپائیدار توازن پیدا کر دیا ہے۔ اب صرف ایک بیرونی جھٹکا — چاہے وہ جغرافیائی کشیدگی ہو یا تجارتی نظام کا ٹوٹنا — بڑی معیشتوں کو طویل بحران میں دھکیلنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔

اور زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اداروں، خاص طور پر مرکزی بینکوں پر عوامی اعتماد دباؤ کا شکار ہے۔ یہ تنبیہ خود ایک سرخ جھنڈی کے مترادف ہے، کیونکہ مرکزی بینکوں کی طاقت ان کے پالیسی ٹولز جتنی ہی ان کی ساکھ پر بھی منحصر ہوتی ہے۔ رپورٹ میں ٹریڈ فریگمنٹیشن اور صنعتوں کو دوبارہ ملک کے اندر لانے کی کوششوں پر جو درپردہ تنقید کی گئی ہے، وہ اس عالمی پالیسی بحران کی اصل جڑ پر ضرب لگاتی ہے جس کا آج دنیا کو سامنا ہے۔

حکومتیں دشمن یا ناقابلِ اعتبار تجارتی شراکت داروں پر انحصار کم کرنے کی جانب گامزن ہیں، لیکن وہ یہ اقدام مؤثر نظام اور باہمی ہم آہنگی کی قربانی دے کر کر رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ قیمتوں میں اضافے، مالیاتی پالیسی کو پیچیدہ بنانے اور معاشی نمو میں مزید سستی کی صورت میں نکلتا ہے۔اس کے باوجود، آج کی دنیا میں جہاں قوم پرستی، کثیرالملکی تعاون پر غالب آچکی ہے، اجتماعی معاشی نظم و نسق کے لیے نہ تو کوئی رغبت دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کوئی صلاحیت۔

ڈالر کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر — جو صرف چھ ماہ میں 10 فیصد کم ہو چکی ہے — شاید سب سے فوری اور تشویشناک اشارہ ہے۔ بی آئی ایس کے ماہرین اسے امریکی اثاثوں سے مکمل انخلا نہیں مانتے، تاہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے ڈالر سے جڑی پوزیشنز کو ہیج کرنا بڑھتی ہوئی بے یقینی کا اظہار ہے۔ایسے مالیاتی ادارے جو عالمی سرمایہ کاری اور خودمختار قرضوں کی حکمتِ عملی تشکیل دیتے ہیں، ان کے لیے یہ رجحانات اکثر بڑے پیمانے پر اثاثہ جاتی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں — جو سرمایہ کے عالمی بہاؤ کو شدید متاثر کر سکتے ہیں۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ پالیسی کے لیے اب کتنی گنجائش باقی بچی ہے۔ بی آئی ایس بالکل درست نشاندہی کرتا ہے کہ بہت سی حکومتیں ایک خطرناک جال میں پھنس چکی ہیں: بڑھتا ہوا قرض اب ان کے لیے مستقبل کے بحرانوں سے نمٹنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر چھوڑ رہا ہے، جب اگلا معاشی بحران آئے گا، تو ممکن ہے کہ مالی اور مانیٹری دونوں پالیسیوں کے اوزار مؤثر نہ رہیں، جبکہ عوام ان اداروں پر اعتماد کھو چکے ہوں گے جو انہیں ریلیف فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ایک خطرناک امتزاج ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ بی آئی ایس نے ایسا انتباہ جاری کیا ہو، مگر اس بار اس کی نوعیت نہایت سنگین اور فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ ایک ایسا عالمی مالیاتی نظام جو کمزور بنیادوں پر قائم ہو اور بیک وقت کئی بحرانوں کی زد میں ہو، مزید غفلت یا تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جی 20 ممالک سمیت عالمی مالیاتی نظم و نسق کو اب یہ وہم ترک کرنا ہوگا کہ موجودہ نظام کسی نہ کسی طرح چلتا رہے گا — کیونکہ اب یہ ممکن نہیں رہا۔

عالمی معیشت سے تحفظ کی آخری تہیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔ پالیسی سازوں، سرمایہ کاروں اور اداروں کے لیے لازم ہے کہ اس لمحے کو اس سنجیدگی سے لیں جس کا یہ متقاضی ہے۔ کیونکہ بی آئی ایس جیسے محتاط ادارے نے بھی تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے، تو مالیاتی دنیا کو نرم لینڈنگ کی امید چھوڑ کر تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے کی تیاری کر لینی چاہیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف