ڈیجیٹل فنانس کی جانب عالمی رجحان کو تسلیم کرتے ہوئے، حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ یہ تبدیلی کرپٹو کونسل کی اُس قرارداد کے بعد تیز ہوئی ہے جس میں ایک جامع ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے 26 جون 2025 کو شائع ہونے والی اپنی چھٹی ”ٹارگٹڈ اپڈیٹ“ میں زور دیا ہے کہ ممالک کو ورچوئل اثاثہ جات (وی ایز) اور ورچوئل اثاثہ جات سروس فراہم کرنے والوں ( وی اے ایس پیز) سے متعلق رقوم کی غیر قانونی ترسیل اور دہشت گردوں کی مالی معاونت (اے ایم ایل/سی ایف ٹی) کے خلاف ٹھوس اقدامات لینے ہوں گے۔

فیٹف کی یہ تازہ رپورٹ پاکستان کے لیے ایک اہم رہنما ثابت ہو رہی ہے کیونکہ ملک خود کو عالمی کرپٹو نظام کا ذمہ دار شریک ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ سفارش نمبر 15 (آر.15) اور اس کے وضاحتی نوٹ (آئی ایم آر.15) میں عالمی توقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جو 2019 سے اس شعبے کو ریگولیٹ کرنے کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔

فیٹف کی تازہ رپورٹ دنیا بھر میں ہونے والی پیش رفت کو تسلیم کرتی ہے، خصوصاً اُن ممالک میں جہاں وی اے ایس پیز سرگرمیاں بڑی تعداد میں ہیں، جو اس عالمی مارکیٹ کے تقریباً 98 فیصد پر محیط ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اپریل 2025 تک 138 ممالک کا جائزہ لیا جا چکا ہے، جن میں سے صرف 1 ملک کو مکمل طور پر مطابقت رکھنے والا قرار دیا گیا، جبکہ 40 ممالک (29 فیصد) کو بڑی حد تک مطابقت پذیر قرار دیا گیا، جو 2024 کے مقابلے میں معمولی بہتری کی علامت ہے۔

فیٹف کی تحقیق کے مطابق، اگرچہ کئی ممالک نے ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دیے ہیں، لیکن عملدرآمد میں بنیادی خلا اب بھی موجود ہے۔ زیادہ تر ممالک ابھی تک اُن فطری یا قانونی افراد کی شناخت کرنے میں ناکام ہیں جو وی اے ایس پی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، آف شور اداروں کے خلاف نفاذ کی کمی ہے، اور ٹریول رول کے اطلاق میں شدید مشکلات ہیں۔ یہ ٹریول رول ورچوئل اثاثوں کی منتقلی کے دوران بھیجنے اور وصول کرنے والے کی معلومات کا تبادلہ لازم قرار دیتا ہے۔ 2025 تک 117 میں سے 85 ممالک میں یہ قاعدہ قانون کا حصہ تو بن چکا ہے، مگر عملی نفاذ کمزور ہے۔

فیٹف نے خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ وی ایز اور وی اے ایس پیز سے متعلق خطرات کا جامع تجزیہ کریں۔ رپورٹ کے مطابق، 2025 میں صرف 76 فیصد ممالک نے یہ تجزیے مکمل کیے ہیں، مگر ریگولیٹری نگرانی کے نظام کی عملی فعالیت ابھی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

فیٹف نے فوری اقدامات کی سفارش کی ہے، جیسے لائسنسنگ، خطرات کی بنیاد پر نگرانی، اور مؤثر نفاذ کے اقدامات۔ پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے جو ملکی اور آف شور وی اے ایس پیز سرگرمیوں دونوں کو ریگولیٹ کرے، اور منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت اور جوہری پھیلاؤ سے متعلق خطرات کو کم کرنے کے لیے حفاظتی اقدامات شامل ہوں۔

رپورٹ میں ابھرتے ہوئے نئے خطرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ شمالی کوریا ( کی طرف سے 2025 میں وی اے ایس پی بائی بیٹ سے 1.46 ارب ڈالر کی چوری اور پھر 125,000 ایتھریم والیٹس کے ذریعے رقوم کو لانڈر کرنے کا معاملہ اس خطرے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ صرف 3.8 فیصد چوری شدہ فنڈز ہی واپس حاصل کیے جا سکے، جس سے اثاثہ جات کی بازیابی کے نظام کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

فیٹف کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں 51 ارب امریکی ڈالر کی غیرقانونی سرگرمیاں ورچوئل اثاثہ جات کے ذریعے انجام دی گئیں، جن میں اکثریت اسٹیبل کوائنز کے ذریعے ہوئی۔ ان میں سب سے نمایاں ٹرون نیٹ ورک پر یو ایس ڈی ٹی کی لین دین تھی، جو تیز رفتار اور شناخت چھپانے کی صلاحیت کے باعث مجرموں کی ترجیح بنی رہی۔

فیٹف نے عوامی اداروں کے لیے پانچ بنیادی ترجیحات کی نشاندہی کی ہے:

پہلا، ممالک فوری طور پر منی لانڈرنگ، دہشت گردی و جوہری پھیلاؤ کے خطرات کا تجزیہ مکمل کریں اور حفاظتی حکمتِ عملی اپنائیں۔ دوسرا، یا تو وی ایز اور وی اے ایس پیز کو مکمل ریگولیٹ کریں یا واضح طور پر پابندی عائد کریں، کیونکہ مکمل پابندی کا نفاذ عموماً مؤثر نہیں ہوتا۔ تیسرا، لائسنسنگ اور شناختی نظام متعارف کروائے جائیں، جن میں آف شور وی اے ایس پیز بھی شامل ہوں۔ چوتھا، ٹریول رول کو فوری طور پر قانون کا حصہ بنایا جائے اور اس کا مؤثر نفاذ یقینی بنایا جائے۔

آخر میں، ریگولیٹرز کو مستحکم کرنسیوں ، ڈی سینٹرلائزڈ فنانس (ڈائی فائی) انتظامات، اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے مدد یافتہ دھوکہ دہی اور غیر ریگولیٹڈ والٹس پر مبنی فراڈ ماحولی نظام سے پیدا ہونے والے خطرات کی نگرانی اور ان کا تدارک کرنا ہوگا۔

نجی شعبے کے لیے، فیٹف نے وی اے ایس پیز (ورچوئل اثاثہ جات سروس فراہم کنندگان) پر زور دیا ہے کہ وہ خطرے کے تجزیے کی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں، مستحکم کرنسیوں سے مخصوص خطرات کا سدِباب کریں، اور ایسے فراڈ کے خلاف اقدامات اختیار کریں جیسے کہ ایڈریس پوائزننگ اور پگ بچرنگ۔

فیٹف نے ورچوئل اثاثہ جات رابطہ گروپ (وی اے سی جی) کے لیے اپنا روڈ میپ بھی بیان کیا ہے، جس میں اکتوبر 2025 سے جون 2026 کے درمیان ڈی سینٹرلائزڈ فنانس، مستحکم کرنسیوں اور آف شور وی اے ایس پیز سے متعلق ہدفی رپورٹس تیار کرنا شامل ہے۔ یہ رپورٹس مستقبل کے ریگولیٹری اقدامات کی رہنمائی کریں گی۔

وی اے سی جی کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ وہ اُن ممالک کی عوامی فہرست کو اپڈیٹ رکھے جہاں وی اے ایس پی سرگرمیاں بڑی تعداد میں جاری ہیں۔ اس فہرست میں 2025 کے لیے نو مزید غیرفیٹف ممالک شامل کیے گئے ہیں۔ فیٹف نے زور دیا ہے کہ ممالک غیر ریگولیٹڈ وی اے ایس پیز کو زیادہ خطرے والے ادارے قرار دیں، اور 2021 میں جاری کردہ خطرے پر مبنی رہنمائی کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کی۔

سفارش نمبر 15 پر عمل درآمد کی موجودہ صورتحال میں بہتری تو آئی ہے، لیکن چیلنجز برقرار ہیں۔ اپریل 2025 تک 138 ممالک کے جائزے میں:

29 فیصد کو ”بڑی حد تک تعیمل“ قرار دیا گیا ہے (2024 میں یہ شرح 25 فیصد تھی) 49 فیصد ”جزوی تعمیل“ والے قرار پائے جبکہ 21 فیصد تاحال بلکل تعمیل نہ کرسکے ہیں صرف ایک ملک کو مکمل مطابقت پذیر قرار دیا گیا ہے۔

ٹریول رول کے ضمن میں، اگرچہ 73 فیصد ممالک نے اس سے متعلق قانون سازی کی ہے، لیکن صرف 41 فیصد نے اس پر مؤثر عملدرآمد یا نگرانی شروع کی ہے۔ فیٹف نے نشاندہی کی کہ مختلف ممالک کے درمیان تعاون کی کمی ایک اہم کمزوری ہے، خاص طور پر کیونکہ ورچوئل اثاثہ جات کی نوعیت سرحدوں سے ماورا ہے۔

فیٹف کی منسلکہ جدول کے مطابق، بہاماس، مالٹا اور لکسمبرگ جیسے ممالک نے قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان جیسے ممالک جو قانونی اور ادارہ جاتی اقدامات کو رسمی شکل دے رہے ہیں، اُنہیں فیٹف کے معیار سے ہم آہنگی کے لیے اپنی رفتار تیز کرنا ہوگی۔ پاکستان کو ان کامیاب ممالک سے سیکھنا ہوگا، خاص طور پر لائسنسنگ، خطرے کے تجزیے، اور نفاذ سے متعلق پہلوؤں میں۔

پاکستان کو آئندہ کی راہ کے لیے تین فوری چیلنجز سے نمٹنا ہوگا:

  1. تکنیکی چیلنج: ورچوئل اثاثہ جات (وی ایز) اور سروس فراہم کنندگان (وی اے ایس پیز) کے لیے واضح اور قابلِ نفاذ تعریفات کا تعین ملکی قانون میں کیا جائے، جو فیٹف کی وضاحتی نوٹ سے ہم آہنگ ہوں۔

  2. ریگولیٹری چیلنج: خطرے پر مبنی فریم ورک بنایا جائے جس میں لائسنسنگ کی شرائط، وی اے ایس پیز کی شناخت، اور ٹریول رول کا مؤثر نفاذ شامل ہو۔

  3. ادارہ جاتی چیلنج: ریگولیٹرز، قانون نافذ کرنے والے ادارے، اور مالیاتی انٹیلیجنس یونٹس کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ ورچوئل اثاثہ جات سے متعلق جرائم کی نگرانی، تحقیقات اور سزا دینے کی اہلیت رکھ سکیں۔

پاکستان کو بلاک چین اینالیٹکس کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری، سرحد پار تعاون کے پروٹوکولز، اور لائسنس یافتہ وی اے ایس پیز کی عوامی رجسٹریاں بنانے کو بھی ترجیح دینی چاہیے۔ فیٹف کی جانب سے وی اے سی جی اورگلوبل نیٹ ورک کے ساتھ تکنیکی معاونت کی پیشکش پاکستان کے لیے ایک قیمتی موقع ہے کہ وہ مخصوص فنی مدد طلب کرے اور تعمیل کے خلا کو پُر کرے۔

حکومتِ پاکستان کا کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ بروقت اور فیٹف کے عالمی روڈ میپ سے مطابقت رکھتا ہے۔

تاہم، اگر یہ اقدام فیٹف کی سفارش نمبر 15 پر مبنی مضبوط اور قابلِ نفاذ ریگولیٹری نظام کے بغیر کیا گیا تو پاکستان عالمی تعمیل کے معیار پر پورا اترنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔

اب پاکستان کو جلد از جلد قوانین کو باقاعدہ شکل دینی ہوگی، ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا اور ورچوئل اثاثہ جات کے لیے بین الاقوامی نگرانی کے نظام میں شمولیت اختیار کرنی ہوگی۔یہ نہ صرف فیٹف کی تعمیل کو یقینی بنائے گا بلکہ پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل معیشت میں ایک قابلِ اعتماد اور محفوظ فریق کے طور پر نمایاں کرے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف