پاکستان کا ایک وقت کا اُبھرتا ہوا ٹیک اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ جو ملک کبھی ڈیجیٹل جدت کے لیے ایک نئی ابھرتی ہوئی مارکیٹ بننے جا رہا تھا، اب وہاں سے معروف اسٹارٹ اپس کے انخلا کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔

جولائی میں معروف کمپنی کریم بھی پاکستان میں اپنی رائیڈ ہیلنگ سروسز 18 جولائی تک بند کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، گزشتہ 18 مہینوں کے دوران کئی بڑی کمپنیوں نے بھی اپنے آپریشن بند کر دیے، جن میں شامل ہیں:

  • ایئرلفٹ (جس نے 85 ملین ڈالر فنڈنگ حاصل کی تھی اور 2022 میں بند ہوا)،
  • سوِول (جو نیسڈک پر لسٹڈ ہے اور 2022 میں پاکستان سے نکل گیا)،
  • واوا کارز (2023 میں ملک چھوڑ گیا)،
  • ٹرک اِٹ اِن (پہلے ماڈل تبدیل کیا، پھر 2024 میں بند ہو گیا)،
  • میڈزن مور اور جگنو (جنہوں نے اپنا آپریشن مکمل طور پر بند یا معطل کر دیا)،
  • دستگیر، بائیکیا اور دیگر کئی ادارے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بلوم برگ کے مطابق، 2021 سے 2024 کے درمیان 55 سے زائد ایسے اسٹارٹ اپس جنہوں نے فنڈنگ حاصل کی تھی، بند ہو چکے ہیں یا انہوں نے اپنے کاروباری ماڈلز میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔

اسٹارٹ اپ فنڈنگ میں تباہ کن کمی

پاکستان میں اسٹارٹ اپ فنڈنگ میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔انویسٹ ٹو انوویٹ (آئی ٹو آئی) کے مرتب کردہ ڈیٹا کے مطابق، 2022 میں پاکستان میں اسٹارٹ اپ فنڈنگ 355 ملین ڈالر تھی، جو 2024 میں کم ہو کر صرف 43 ملین ڈالر رہ گئی — یعنی 88 فیصد کی نمایاں کمی۔

2025 میں ایک پاکستانی فِن ٹیک کمپنی حبّال نے شریعت کے مطابق سپلائی چین فنانسنگ اور پیمنٹ سروسز کے لیے 52 ملین ڈالر فنڈنگ حاصل کی، لیکن ماہرین کے مطابق یہ پوری انڈسٹری میں سرمایے کی قلت کے اس دور میں ایک استثنائی مثال ہو سکتی ہے۔

موازنہ کے طور پر، بھارت نے 2024 میں 7.5 ارب ڈالر اور بنگلہ دیش نے 140 ملین ڈالر اسٹارٹ اپ فنڈنگ حاصل کی۔

صنعتی رہنما اس زوال کی وجوہات میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی (جو 2022 سے اب تک 30 فیصد ہو چکی ہے)، ریگولیٹری رکاوٹیں، اور ٹیکس پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کو شامل قرار دے رہے ہیں۔

تعلیم کے شعبے سے وابستہ ایک ٹیک اسٹارٹ اپ کی بانی، ماہین، نے حال ہی میں کہا کہ آپ یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ عالمی ٹیک کمپنیاں یہاں قیام کریں گی جب ہر دوسرے دن انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے اور بیرونی سرمایہ کار کو رقم بھیجنے کے لیے چھ مختلف منظوریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

مہارت اور بنیادی ڈھانچے کا بحران

پاکستان میں مہارت اور انفرا اسٹرکچر کی صورتحال بھی بگڑتی جا رہی ہے۔ گزشتہ 12 مہینوں میں 5,000 سے زائد سافٹ ویئر ڈویلپرز کینیڈا، متحدہ عرب امارات، اور جرمنی منتقل ہو چکے ہیں، جبکہ 2023 میں 10,000 ٹیک ورکرز نے ملک چھوڑا، یہ اعداد و شمار بیورو آف ایمیگریشن نے جاری کیے۔

یونیورسٹیوں میں کمپیوٹر سائنس کے گریجویٹس کی مقامی سطح پر برقرار رہنے کی شرح بھی کم ہو گئی ہے — 2020 میں یہ شرح 73 فیصد تھی، جو 2024 میں گھٹ کر 41 فیصد رہ گئی۔

فری لانسرز کی ترسیلات زر میں بھی کمی آئی ہے — مالی سال 2023 میں یہ 400 ملین ڈالر تھیں، جو 2024 میں کم ہو کر 290 ملین ڈالر رہ گئیں، یعنی 27.5 فیصد کی کمی۔

دوسری جانب، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں روزانہ 6 سے 8 گھنٹے بجلی کی بندش معمول بن چکی ہے، جبکہ انٹرنیٹ کی رفتار عالمی درجہ بندی میں جون 2025 میں 126 ویں نمبر پر آئی۔

اس کے علاوہ، بہت سے پاکستانی اسٹارٹ اپس اب دبئی، سنگاپور یا ڈیلاویئر میں رجسٹر ہو رہے ہیں تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں سے فنڈنگ حاصل کی جا سکے، بینکاری نظام زیادہ مستحکم ہو، اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی (آئی پی) کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیک ایکسپورٹرز کے لیے ڈالر رکھنے والے اکاؤنٹس کی عدم دستیابی، اچانک ٹیکس میں تبدیلیاں، اور ڈیجیٹل خدمات سے متعلق غیر واضح قوانین نے بھی اس شعبے کو غیر محفوظ اور غیر یقینی بنا دیا ہے۔

Comments

200 حروف