جسٹس سید منصور علی شاہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے ججوں کی سنیارٹی کے تعین سے متعلق صدارتی نوٹیفکیشن پر تحفظات کا اظہار کیا، جو چیف جسٹس آف پاکستان اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 19 جون کو اپنے مختصر حکم نامے میں صدرِ پاکستان کو ہدایت دی کہ وہ منتقل ہونے والے ججوں کی سنیارٹی اور تبادلے کی نوعیت کا تعین کریں۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ججوں کا تبادلہ آئینی دائرہ کار کے اندر ہے اور کسی جج کا تبادلہ (عارضی ہو یا مستقل) نئے تقرر کے مترادف نہیں سمجھا جاسکتا۔
صدر آصف علی زرداری نے 27 جون کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے ذریعے سردار محمد سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر ترین جج قرار دیا۔ نوٹیفکیشن میں یہ بھی بتایا گیا کہ جسٹس ڈوگر، جسٹس سومرو اور جسٹس آصف کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مستقل بنیادوں پر کیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن کی بنیاد پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے اکثریتی رائے سے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر نامزد کیا۔
جسٹس منصور نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے ایک روز قبل سیکریٹری جے سی پی کو لکھے گئے خط میں اس بات پر شدید آئینی تحفظات کا اظہار کیا کہ صدرِ مملکت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی سینیارٹی کا تعین خود کیا۔
خط میں سینئر پویزن جج جو اس وقت بیرون ملک مقیم ہیں، نے لکھا: “تمام تر احترام کے ساتھ، بظاہر یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے لازمی آئینی مشاورت کے بغیر اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے اپنے مؤقف میں کہا کہ ان کے نزدیک مشاورت کی شرط ایک لازمی آئینی تقاضا ہے، جو کسی انتظامی صوابدید کا معاملہ نہیں جسے آسانی سے نظرانداز کیا جا سکے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس طرح کی مشاورت کے بغیر کیا گیا یکطرفہ فیصلہ قانونی حیثیت سے محروم ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے صدرِ مملکت کو منتقل شدہ ججوں کی سینیارٹی کے تعین کی ہدایت دی تھی، تاہم اس پر عملدرآمد آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور نے مزید لکھا کہ زیرِ بحث صدارتی اقدام بظاہر غیر معمولی عجلت میں اٹھایا گیا، جو اس عمل کی شفافیت اور موزونیت سے متعلق خدشات کو جنم دیتا ہے — ایسے خدشات جو ممکنہ طور پر آئینی جانچ کے متقاضی ہو سکتے ہیں۔
سینئر جج نے مزید نشاندہی کی کہ آئین کا آرٹیکل 200 ججوں کے عارضی تبادلے کی اجازت دیتا ہے، مستقل تقرری یا منتقلی کی نہیں۔
ایسے تبادلے کو مستقل تقرری کے طور پر لینا — اور اسی بنیاد پر سنیارٹی کا تعین کرنا — سنگین آئینی سوالات کو جنم دے سکتا ہے، خاص طور پر جب اس عمل میں بنیادی آئینی تقاضے اور طریقہ کار کی ضمانتیں نظرانداز کی گئی ہوں۔
ادارہ جاتی احتیاط پر زور دیتے ہوئے جسٹس منصور نے کہا کہ اُن کے خط میں اٹھائے گئے نکات پر کسی بھی آئندہ اقدام سے قبل سنجیدگی سے غور و فکر کیا جانا چاہیے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ابتدائی نوعیت کے تحفظات ہیں اور میں عدالتی عمل اور ان امور کے حتمی فیصلے کے لیے سپریم کورٹ کے اختیارِ اعلیٰ کا مکمل احترام کرتا ہوں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments