پاکستان کے دفتر خارجہ نے آج ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس اعلان کی شدید مذمت کی ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نئی دہلی کبھی بھی سندھ طاس معاہدے کو بحال نہیں کرے گا۔ پاکستان نے اس بیان کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی اور خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔

یہ ردعمل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے دیرینہ تنازع پر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو دونوں ملکوں کے پیچیدہ تعلقات میں عرصے سے ایک حساس اور نازک مسئلہ بنا ہوا ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنے باضابطہ بیان میں معاہدے کی قانونی حیثیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ کوئی سیاسی انتظام نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں یکطرفہ فیصلے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔

بیان میں بھارت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ 1960 کے ورلڈ بینک کی ثالثی سے طے پانے والے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو کھلم کھلا نظرانداز کر رہا ہے جو دریائے سندھ کے نظامِ آب کی تقسیم کو منظم کرتا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کو معطل کرنے کا غیرقانونی اعلان بین الاقوامی قانون اور خود معاہدے کی صراحتوں کی خلاف ورزی ہے جو باہمی ریاستی تعلقات کے مسلمہ اصولوں کو بھی چیلنج کرتا ہے۔

بیان میں مزید متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ طرزِ عمل نہ صرف انتہائی غیرذمہ دارانہ اور خطرناک نظیر قائم کرتا ہے بلکہ عالمی سفارت کاری میں معاہدوں پر مبنی اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے۔

دفتر خارجہ نے امیت شاہ کے بیان کو پانی کو سیاسی ہتھیار بنانے کی مذموم کوشش قرار دیا، خاص طور پر اس تناظر میں کہ یہ بیان بھارت کی ریاست بہار میں انتخابات سے قبل دیا گیا ہے، جہاں پانی کی تقسیم ایک دیرینہ حساس مسئلہ رہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ایسا غیرذمہ دارانہ رویہ عالمی سطح پر ذمہ دار ریاستی طرزعمل کے اصولوں کے منافی ہے۔ بھارت کو فوری طور پر اپنا یکطرفہ اور غیرقانونی موقف واپس لینا چاہیے۔

پاکستان نے سندھ طاس معاہدے سے اپنی وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے آبی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن سفارتی و قانونی اقدام کرے گا۔

یاد رہے کہ 1960 میں طے پانے والا یہ معاہدہ کئی جنگوں اور بحرانوں کے باوجود قائم رہا ہے تاہم حالیہ برسوں میں اس پر دباؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

Comments

200 حروف