ٹیکس فراڈ پر گرفتاری: فنانس بل کے ذریعے ٹیکس قوانین میں بڑی تبدیلیاں متعارف
- بل اس وقت قومی اسمبلی اور مختلف کاروباری حلقوں میں زیر بحث ہے، ایف بی آر
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس چوری یا ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے فنانس بل 2025 کے ذریعے سیلز ٹیکس قانون میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کروادی ہیں۔
ایف بی آر کی جانب سے جمعہ کو جاری کردہ بیان کے مطابق فنانس بل اس وقت قومی اسمبلی اور مختلف کاروباری حلقوں میں زیربحث ہے۔
یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ فنانس بل میں کی گئی بعض ترامیم کو عوام کی بڑی تعداد کی جانب سے درست طور پر نہیں سمجھا گیا۔
مثال کے طور پر سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی شق 37 اے کے تحت ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری سے متعلق قانونی دفعات پہلے ہی موجود ہیں، جن کے ساتھ ایک تفصیلی طریقہ کار بھی مقرر ہے، اس میں گرفتاری کے فوراً بعد اسپیشل جج کو اطلاع دینا اور ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر اسپیشل جج کے روبرو پیش کرنا شامل ہے۔
تاہم مجوزہ ترمیم کے تحت اب افسر کو گرفتاری کے اختیارات محدود کردیے گئے ہیں اور گرفتاری سے قبل کمشنر ان لینڈ ریونیو (سی آئی آر) کی منظوری کے بعد باقاعدہ انکوائری کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
صرف انکوائری کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی کمشنر ان لینڈ ریونیو تفتیش کی اجازت دیں گے جس کے بعد تفتیشی افسر کو ضابطہ فوجداری 1898 (ایکٹ نمبر 5 آف 1898) کے تحت تھانے کے انچارج کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ گرفتاری صرف اسی صورت میں کی جاسکے گی جب تفتیشی افسر کو یہ یقین ہو کہ متعلقہ شخص نے ٹیکس فراڈ کیا ہے اور اس کے لیے بھی سی آئی آر کی پیشگی منظوری لازمی ہوگی۔
ایف بی آر نے مزید کہا کہ نئی قانونی شق میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ اگر گرفتاری بدنیتی پر مبنی ثابت ہو تو معاملہ حقائق کی چھان بین کے لیے چیف کمشنر کو بھیجا جائے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلی شق، جس کے تحت اسسٹنٹ کمشنر ان لینڈ ریونیو کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتا تھا، کے برعکس نئی ترامیم شفافیت کو یقینی بناتی ہیں، کیونکہ ان کے تحت پہلے باقاعدہ انکوائری اور تفتیش لازمی قرار دی گئی ہے، اور گرفتاری کے لیے بھی سی آئی آر کی باقاعدہ منظوری ضروری ہوگی۔
مزید برآں، کچھ تبدیلیاں اور ترامیم اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ ان ٹیکس دہندگان کو یقین دہانی کرائی جاسکے جو قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرتے ہیں کہ ریاست ٹیکس چوری یا ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹے گی۔
چیئرمین ایف بی آر رشید محمود لنگڑیال نے ٹیکس قوانین میں حالیہ تبدیلیوں پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے اور کہا کہ جہاں ضرورت ہو وہاں ترامیم متعارف کرائی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، گرفتاری سے متعلق شقوں پر نظرثانی کرتے ہوئے یہ لازمی قرار دیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی گرفتاری سے قبل متعدد سینئر افسران کی منظوری حاصل کی جائے۔
مزید یہ کہ بااختیار ٹیکس افسران کی جانب سے ان اختیارات کے غلط استعمال سے ٹیکس دہندگان اور کاروباری برادری کو بچانے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی ہے، جس کی سربراہی وزیر خزانہ و ریونیو کریں گے۔ یہ کمیٹی مجوزہ ترامیم کا ازسرنو جائزہ لے گی اور اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے مؤثر حفاظتی اقدامات تجویز کرے گی۔
کمیٹی کے دیگر اراکین میں وزیر قانون، وزیر اقتصادی امور، وزیر مملکت برائے خزانہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار، اور چیئرمین ایف بی آر شامل ہوں گے۔
کمیٹی مختلف آپشنز کا جائزہ بھی لے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ قانونی اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ آئے اور اختیارات کے غیر قانونی استعمال کے خلاف مزید حفاظتی اقدامات تجویز کیے جاسکیں۔ کمیٹی اپنی سفارشات تین روز کے اندر وزیراعظم کو پیش کرے گی۔
ایف بی آر نے مزید کہا کہ وہ قانون کے پابند ٹیکس دہندگان کے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ریاستی محصولات کو بڑھانے کے لیے نہ صرف ٹیکس نادہندگان کی حوصلہ شکنی کرے گا بلکہ ان افراد و اداروں کو سراہا جائے گا جو ریاست کو اپنا جائز حصہ ادا کر رہے ہیں۔
Comments