کام کرنے والے طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے اقدام کے طور پر، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وفاقی بجٹ 26-2025 میں کم اور درمیانی آمدنی والے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرحوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔
تاہم، تنخواہ دار طبقے کے نمائندے اب بھی غیر مطمئن ہیں، جن کا کہنا ہے کہ دی گئی رعایت نہایت معمولی ہے اور حکومت نے وسیع تر ٹیکس اصلاحات کو نظرانداز کیا ہے۔
بجٹ میں انکم ٹیکس سے مستثنیٰ سالانہ آمدنی کی حد کو 6 لاکھ روپے پر برقرار رکھا گیا ہے، جبکہ تنخواہ دار طبقے کے اتحاد (ایس سی اے پی) کی دیرینہ مطالبے کو مسترد کر دیا گیا ہے جس میں اس حد کو 12 لاکھ روپے تک بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے بجائے حکومت نے 6 لاکھ 1 روپے سے 32 لاکھ روپے سالانہ کمانے والے افراد کے لیے محدود حد تک ٹیکس کی شرحیں کم کرنے پر توجہ دی ہے۔
فنانس بل 26-2025 کے مطابق، 6 لاکھ 1 روپے سے 12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے گھٹا کر 1 فیصد کر دی گئی ہے۔ 12 لاکھ 1 روپے سے 22 لاکھ روپے کمانے والوں کے لیے شرح 15 فیصد سے گھٹا کر 11 فیصد کر دی گئی ہے، جبکہ فکسڈ ٹیکس بھی 30,000 روپے سے کم کر کے 6,000 روپے کر دیا گیا ہے۔ 22 لاکھ 1 روپے سے 32 لاکھ روپے کمانے والے افراد کے لیے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کر دی گئی ہے، اور فکسڈ ٹیکس کو 1,80,000 روپے سے کم کر کے 1,16,000 روپے کر دیا گیا ہے۔
32 لاکھ روپے سالانہ سے زائد کمانے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ 41 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر 30 فیصد اور اس سے زیادہ آمدنی پر 35 فیصد ٹیکس کی موجودہ شرحیں برقرار رکھی گئی ہیں۔ البتہ ان دونوں سلیبز کے فکسڈ ٹیکس کو بالترتیب 4,30,000 روپے اور 7,00,000 روپے سے کم کر کے 3,46,000 روپے اور 6,16,000 روپے کر دیا گیا ہے۔
ایک معمولی رعایت یہ بھی دی گئی ہے کہ سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پر سرچارج کی شرح 10 فیصد سے کم کر کے 9 فیصد کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں تنخواہ دار طبقے نے مالی سال 25 کے دوران برآمدکنندگان اور ریٹیلرز کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ٹیکس دیا۔
اگرچہ یہ اقدامات بظاہر تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف فراہم کرتے ہیں، لیکن ایس سی اے پی نے انہیں ناکافی قرار دیا ہے۔ ایس سی اے پی کی رکن کومل علی نے کہا کہ تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی نہایت معمولی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی تھوڑا بہت ریلیف ملا ہے، وہ سرمایہ کاری کے ذرائع جیسے بینکنگ پراڈکٹس اور میوچل فنڈز پر بڑھتے ہوئے ٹیکس ریٹ سے زائل ہو جاتا ہے، جن پر بہت سے تنخواہ دار افراد انحصار کرتے ہیں۔
انہوں نے حکومت کو ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں ناکامی پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ان لاکھوں صاحبِ ثروت افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوئی بات نہیں کی گئی جو ابھی تک ٹیکس نظام سے باہر ہیں۔ وزیر خزانہ نے زراعت یا ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
مالی سال 25 کے دوران، تنخواہ دار افراد نے قومی خزانے میں 550 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم جمع کروائی، جس سے یہ پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے طبقوں میں شامل ہیں۔
Comments