پاکستان

توانائی شعبے کا 10 سالہ منصوبہ منظور

  • بجلی کی قیمتوں میں کمی، گردشی قرضے کے خاتمے، لائن لاسز اور بجلی چوری پر قابو پانے کیلئے اقدامات جاری رکھے جائیں، وزیراعظم
شائع May 20, 2025

وزیراعظم شہباز شریف نے پاور ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی، گردشی قرضے کے خاتمے، لائن لاسز اور بجلی چوری پر قابو پانے کے لیے اقدامات جاری رکھے جائیں۔ بزنس ریکارڈر کو ذرائع نے بتایا کہ یہ ہدایات اُس وقت جاری کی گئیں جب وزیراعظم نے پاکستان کے توانائی شعبے کے لیے طویل عرصے سے منتظر 10 سالہ منصوبہ ”انٹیگریٹڈ جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) 34-2024“ کی منظوری دی۔

یہ منصوبہ 7,967 میگاواٹ کے مجوزہ منصوبوں کی ری شیڈولنگ اور منسوخی کے ذریعے 17 ارب ڈالر کی بچت کا امکان رکھتا ہے۔ آئی جی سی ای پی کا بنیادی مقصد سستی اور قابلِ اعتماد بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، اور تمام نئے منصوبے کم ترین لاگت کے اصول پر مبنی انتخاب کے ذریعے شامل کیے گئے ہیں۔

سرکاری تخمینوں کے مطابق، اس نظرثانی شدہ حکمت عملی سے قومی معیشت پر پڑنے والا بوجھ 474.3 ارب روپے کم ہوگا، جبکہ منصوبوں کی ٹائم لائنز میں ردوبدل کے ذریعے تقریباً 10 ارب ڈالر (2,790 ارب روپے) کی بچت متوقع ہے۔ اس کے علاوہ، 7,967 میگاواٹ کے منصوبوں کو منسوخ کرنے سے مزید 7 ارب ڈالر (1,953 ارب روپے) کی بچت کی امید ہے۔

یہ تبدیلیاں بجلی کے ٹیرف میں کمی لانے کا باعث بنیں گی، اور اندازہ ہے کہ فی یونٹ اوسط قیمت میں 2 روپے سے زائد کی کمی آئے گی۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ پہلی بار بجلی کے منصوبوں کا انتخاب مکمل شفافیت کے ساتھ صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ مہنگے اور غیر ضروری منصوبوں کو نکال دیا گیا ہے اور قومی مفاد کو انفرادی یا سیاسی مفادات پر ترجیح دی گئی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاور ڈویژن ساختی اصلاحات کے ذریعے بجلی کی قیمتوں میں کمی، گردشی قرضے کے خاتمے، لائن لاسز اور چوری پر قابو پانے اور ڈسکوز میں کرپشن کے خاتمے کے لیے مسلسل اقدامات کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ موسمیاتی تحفظ ممکن ہو اور درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بچایا جا سکے۔

اصل آئی جی سی ای پی میں 14,984 میگاواٹ کے نئے منصوبے شامل تھے، جنہیں اب کم کرکے 7,017 میگاواٹ کے 18 منصوبوں تک محدود کر دیا گیا ہے، جن میں داسو اور مہمند جیسے اسٹریٹجک ہائیڈرو پاور منصوبے شامل ہیں۔ ترجیح اُن 7,987 میگاواٹ کے منصوبوں کو دی گئی ہے جو مقامی وسائل — جیسے ہائیڈرو، سولر، نیوکلیئر اور ونڈ — پر مبنی ہیں تاکہ درآمدی ایندھن (کوئلہ اور گیس) پر انحصار کم ہو اور سالانہ اربوں روپے کا زرمبادلہ بچایا جا سکے۔

وزارت آبی وسائل کو ہدایت دی گئی ہے کہ وزیراعظم کے مقرر کردہ شیڈول کے مطابق اسٹریٹجک ہائیڈرو پاور منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنائے، ان منصوبوں کا فنانشل کلوز مکمل کرے اور لاگت میں کسی بھی اضافے سے بچا جائے۔ چیئرمین واپڈا کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وزیراعظم کو ان منصوبوں کی پیشرفت کی باقاعدہ رپورٹ دیں۔

اسی طرح، سیکریٹری پاور، سیکریٹری پیٹرولیم اور ٹاسک فورس کے چیئرمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بین الوزارتی اور دیگر رکاوٹوں کو دور کریں تاکہ منصوبوں پر عملدرآمد میں کوئی تاخیر نہ ہو۔

وزیراعظم نے پیٹرولیم شعبے میں اصلاحات کی نگرانی کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی ایل این جی کی طلب کو بجلی کے شعبے کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے، کارگو ڈائیورشن کے مسائل حل کرنے اور گیس شعبے میں گردشی قرضے اور ٹیرف کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرے گی۔

کمیٹی کے ارکان درج ذیل ہیں: (i) وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم (کنوینر)، (ii) وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری (کو کنوینر)، (iii) لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال (رکن)، (iv) سیکریٹری پاور ڈویژن (رکن)، (v) سیکریٹری پیٹرولیم ڈویژن (رکن)۔

کمیٹی کے ٹی او آرز میں شامل ہیں: (i) بجلی کے شعبے کی ایل این جی طلب کو فراہمی کی دستیابی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تجاویز تیار کرنا، (ii) اچانک طلب میں تبدیلی کی وجوہات اور حل کی نشاندہی جو کارگو کی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں، (iii) گیس کے شعبے میں گردشی قرضے میں کمی کے لیے اقدامات تجویز کرنا، (iv) ایل این جی ٹیرف اسٹرکچر، ٹرمینل چارجز، درآمدکنندہ مارجنز اور سروس فیسز کا ازسر نو جائزہ، (v) ملکی گیس ٹیرف میں شفافیت اور یو ایف جی (ان اکائونٹڈ فار گیس) نقصانات کی مؤثر نگرانی، خاص طور پر بڑھتے ہوئے ایل این جی شیئر کے تناظر میں۔

پاور ڈویژن اور ٹاسک فورس کے نیشنل کوآرڈینیٹر وزیراعظم کو ان تمام معاملات پر تفصیلی بریفنگ دیں گے۔

علاوہ ازیں، وزیراعظم نے پاور ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ درآمدی کوئلے پر مبنی بجلی منصوبوں کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی تین ماہ میں مکمل کی جائے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف