سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے ہائی کورٹس کے ججوں کی ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کے بعد سینیارٹی کے تعین میں چیف جسٹس آف پاکستان کے کردار پر سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ججوں کی سینیارٹی کا تعین چیف جسٹس کرتے ہیں یا صدرِ مملکت؟
یہ ریمارکس انہوں نے پانچ رکنی آئینی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے دیے، جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز، پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان، اور کراچی و لاہور بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کر رہا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ ججوں کے ٹرانسفر کے متعلق مشاورت بامقصد اور باہمی اتفاق رائے پر مبنی ہونی چاہیے تھی، جو کہ نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وزارتِ قانون نے 28 جنوری 2025 کو ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کو خط لکھا اور اسی دن ان کی منظوری بھی حاصل کر لی گئی، جب کہ اس سے ایک روز قبل 27 جنوری کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا نوٹس جاری کیا گیا تھا، جس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری متوقع تھی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے 33 ججز میں سے جسٹس سرفراز ڈوگر، جو سینئرٹی میں 16ویں نمبر پر تھے، کو اسلام آباد ہائی کورٹ کیوں منتقل کیا گیا؟ اور کیا یہ اقدام کسی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر سینیارٹی کا مسئلہ اٹھایا گیا تو پھر حلف سے متعلق بحث کی ضرورت نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں تمام ہائی کورٹس کے ججز کی مشترکہ سینیارٹی فہرست ہوتی ہے، جب کہ پاکستان میں ہر ہائی کورٹ اپنی الگ فہرست مرتب کرتی ہے۔
عدالت نے سماعت 14 مئی تک ملتوی کر دی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments