5 مئی کو مانیٹری پالیسی کمیٹی نے سود کی شرح میں 1 فیصد کمی کی جس کے بعد یہ شرح 11 فیصد ہو گئی۔ اس بار کئی ماہرین نے صحیح پیش گوئی کی تھی، کیونکہ مہنگائی کی شرح میں خاصی کمی آئی ہے یعنی ایسی مہنگائی جس میں کھانے پینے اور بجلی و ایندھن جیسی اشیاء شامل نہیں ہوتیں۔ مارچ میں یہ مہنگائی 8.2 فیصد تھی، جو اپریل میں کم ہو کر 7.4 فیصد رہ گئی۔

تاہم، مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اس فیصلے کو مستقبل کے فیصلوں کے لیے معیار نہیں سمجھا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ مارچ 2025 میں کور مہنگائی میں 0.4 فیصد کمی آئی تھی، لیکن پھر بھی سود کی شرح میں معمولی یعنی 0.25 فیصد کی کمی بھی نہیں کی گئی۔ (فروری میں کور مہنگائی 7.8 فیصد تھی، جو مارچ میں بڑھ کر 8.2 فیصد ہو گئی تھی)۔ اسی لیے تجزیہ کاروں کی پچھلی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ بہرحال اپریل میں کنزیومر پرائس انڈیکس صرف 0.3 فیصد رہا جو مارچ میں 0.7 فیصد تھا۔ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے اس پر خاصی خوشی ظاہر کی ہے حالانکہ دنیا بھر میں 2 فیصد مہنگائی کو بہتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے معیشت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔

تاہم، کچھ شواہد موجود ہیں کہ مہنگائی کے اعداد و شمار میں رد و بدل کیا جا رہا ہے اور یہ وہ اعداد ہیں جو براہِ راست معاشی ٹیم کی کارکردگی پر اثر ڈالتے ہیں۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی جانب سے 30 اپریل 2025 کو ختم ہونے والے ہفتے کے سینسیٹو پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) میں ایک واضح غلطی نظر آئی ہے۔ ایس پی آئی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 11.62 فیصد کمی دکھائی گئی ہے، حالانکہ وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ حکومت نے عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی کے باوجود پیٹرول کی قیمتیں کم نہیں کیں بلکہ پیٹرولیم لیوی بڑھا کر قیمتیں برقرار رکھی گئیں تاکہ یہ اضافی رقم بلوچستان کی ترقی پر خرچ کی جا سکے۔

اس کے باوجود، مانیٹری پالیسی بیان میں شرحِ نمو (معاشی ترقی) کا تخمینہ کم نہیں کیا گیا اور اب بھی اسے 2.5 سے 3.5 فیصد کے درمیان رکھا گیا ہے — حالانکہ دنیا بھر میں ٹرمپ کے ٹیرف اور مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعے کے بعد ترقی کے تخمینے کم کیے جا چکے ہیں۔

رپورٹس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت پہلی جائزہ رپورٹ پر عملدرآمد کا معاہدہ اس لیے کیا گیا کیونکہ فنڈ کے عملے نے تسلیم کیا کہ ترقی کی شرح کے تخیمینے میں کمی کیلئے رد و بدل کرنا ضروری ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اکتوبر 2024 میں آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردہ دستاویز میں یہ کہا گیا ہے کہ جی ڈی پی کے تقریباً ایک تہائی حصے والے شعبوں کے لیے دستیاب ڈیٹا میں اہم کمی ہے اور حکومت کے مالیاتی اعداد و شمارکی تفصیلات اور اعتبار میں مسائل ہیں۔

حکام ان کمزوریوں کو دور کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، جس میں آئی ایم ایف کی تکنیکی مدد اور ایک نئے پی پی آئی انڈیکس کے ذریعے معاونت حاصل کی جا رہی ہے۔

تاجر برادری کو شرح سود میں کمی طویل عرصے سے مطلوب تھی اور یہ خاص طور پر لارج مینو فیکچرنگ سیکڑ کیلئے تھی جو عموماً کام کرنے کے لیے سرمایہ قرض لیتے ہیں اور اس قرض پر سود کی ادائیگی کو اخراجات میں شمار کرتے ہیں۔ 1 جولائی 2023 سے 12 اپریل 2024 تک نجی شعبے کو 106 ارب روپے کا قرض دیا گیا جو اس سال کے اسی عرصے میں بڑھ کر 692 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ تاہم ایل ایس ایم کی ترقی منفی 0.45 فیصد (جولائی تا فروری پچھلے سال) سے کم ہو کر منفی 1.9 فیصد ہو گئی۔ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ نجی شعبے کا قرض مینوفیکچرنگ کے بجائے اسٹاک مارکیٹ کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ اس لیے جون 2024 کے آخر تک 22 فیصد سے 12 فیصد تک کی کمی نے ایل ایس ایم کی ترقی کو مثبت نہیں بنایا اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر مزید کمی کی جائے تو کیا اس سے ترقی میں اضافہ ہوگا؟

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں شرحِ سود خطے میں سب سے زیادہ ہے (بھارت 6 فیصد، سری لنکا 8 فیصد، بنگلہ دیش 10 فیصد)، جس کی وجہ سے ہماری مصنوعات عالمی سطح پر غیرمقابلہ ہو چکی ہیں۔

مانیٹری پالیسی بیان میں دو منفی اشاروں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ ذکر بہت ہلکا سا ہے کیونکہ پھر ان کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلا: کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس جو ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ سے آیا، لیکن مارچ میں تجارتی خسارہ 2183 ملین ڈالر تھا جبکہ اپریل میں یہ بڑھ کر 3388 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، یعنی خسارے میں 1205 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا۔

دوسرا: ایم پی سی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مالیاتی آمدن (جو بیلنس آف پیمنٹ کے کیپٹل اکاؤنٹ سے متعلق ہے) کمزور رہی ہے، لیکن درست طریقے سے یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ آمدن منفی رہی۔ پھر بھی ایم پی سی نے عجیب طور پر کہا کہ سرکاری آمدن کے متوقع حصول کی بنیاد پر (جو ابھی تک نہیں آئی)، ایم پی سی کو امید ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے خود حال ہی میں بتایا تھا کہ اس سال 16 ارب ڈالر کے قرضوں کی تجدید کی جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ذخائر ان قرضوں سے 2 ارب ڈالر کم ہوں گے، یعنی یہ کسی بہتر پوزیشن میں نہیں ہے۔

لہٰذا ڈسکاؤنٹ ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی درخواستوں پر کیا جا سکتا ہے، جس نے ڈسکاؤنٹ ریٹ کو ایل ایس ایم گروتھ سے جوڑنے کی ایک طویل تاریخ رکھی ہے۔ حکومت نے ایم پی سی سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ شرحِ سود میں کمی کرے تاکہ معیشت کو دوبارہ چلایا جا سکے۔ یہ فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا گیا جب تک اس پر عالمی مالیاتی فنڈ کے عملے کی منظوری نہیں مل۔

Comments

200 حروف