قطر غزہ مذاکرات سے دستبردار، حماس کو دوحہ دفتر پر انتباہ
- قطر، امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر جنگ بندی اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے کئی مہینوں تک بے نتیجہ مذاکرات میں مصروف رہا ہے
قطر غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں سے متعلق معاہدے کے لیے اہم ثالث کی حیثیت سے دستبردار ہوچکا ہے اور اس نے حماس کو متنبہ کیا ہے کہ اس کا دوحہ دفتر اب اس مقصد کیلئے خدمات جاری نہیں رکھے گا۔
قطر، امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر کئی مہینوں سے جنگ بندی کے لیے مذاکرات کر رہا تھا، جن میں یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی شامل تھی، مگر یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔
ذرائع کے مطابق قطریوں نے اسرائیلیوں اور حماس دونوں کو آگاہ کیا کہ جب تک معاہدے کیلئے نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے وہ ثالثی جاری نہیں رکھ سکھتے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں حماس کا سیاسی دفتر اب اس مقصد کیلئے کام جاری نہیں رکھ سکتا۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ قطر پہلے ہی اپنے فیصلے سے دونوں فریقوں، اسرائیل اور حماس کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کو آگاہ کر چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق قطریوں نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ وہ ثالثی میں دوبارہ مشغول ہونے کے لیے اس وقت تیار ہوں گے جب دونوں فریقین سنجیدہ طور پر مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی رضا مندی ظاہر کریں گے۔
قطر، جو امریکہ کا ایک بڑا فوجی اڈہ ہے، 2012 سے حماس کی سیاسی قیادت کی میزبانی کر رہا ہے۔
حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے کے بعد ہونے والی بات چیت کے دوران، قطری اور امریکی حکام نے یہ اشارہ دیا تھا کہ حماس گروپ دوحہ میں اس وقت تک رہے گا جب تک اس کی موجودگی ایک قابلِ عمل مواصلاتی چینل فراہم کرتی رہے۔
قطر نے اپریل میں کہا تھا کہ وہ تنازع میں ثالث کے طور پر اپنے کردار کا ازسرنو جائزہ لے رہا ہے کیونکہ اسے خاص طور پر اسرائیلی اور امریکی سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اس وقت قطریوں نے حماس کے دفتر کی حیثیت کے بارے میں اسی طرح کا پیغام دیا تھا جس کے بعد حماس کے عہدیداروں کو ترکیہ روانہ ہونا پڑا تھا۔
لیکن ذرائع نے بتایا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی درخواست پر دو ہفتوں کے بعد واپس آئے کیونکہ ترکی میں مذاکرات ”غیر موثر“ تھے۔
گزشتہ سال کے اواخر میں لڑائی میں ایک ہفتے کے وقفے کے علاوہ، جس کے دوران حماس کے زیر حراست متعدد یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تھا، مذاکرات کے لگاتار دور جنگ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی مدت کے اختتام کے قریب اور اس ہفتے کے امریکی انتخابات کے پیش نظر، واشنگٹن اور دوحہ نے گزشتہ ماہ نئے آپشنز تلاش کرنے کے لیے براہِ راست بات چیت شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم، تازہ ترین اقدام میں کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہو سکی۔
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ قطر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دونوں طرف سے کسی بھی قسم کی سنجیدہ رضامندی نہیں ہے اور ثالثی کی کوششیں امن کے حصول کی سنجیدہ کوشش کے بجائے سیاست اور انتخابات کے بارے میں زیادہ ہو رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق قطر نے امریکی انتظامیہ اور دونوں فریقوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے قطر کا استحصال کرنے کی کوششوں کو قبول نہیں کرے گا جو عوامی رائے کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
Comments