اب جبکہ پاکستان کی پہلی نسل کے شہری رخصت ہورہے ہیں وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی داستان قلمبند کریں۔ موجودہ نسل، جو آزاد شہریوں کی حیثیت سے پیدا ہوئی، ان والدین کی اولاد ہے جو ایک نوآبادیاتی سلطنت کے شہری تھے لیکن انہوں نے آزادی حاصل کی—ایک ایسی آزادی جو عملاً ایک ہی نسل کے اندر اندر کھودی گئی۔
ہمارے لئے انتخاب مشکل لیکن آسان ہے۔ غلاموں کی طرح مرنا یا ہمارے والدین کی طرح آزاد مردوں کی طرح مرنا؟ یہ مضمون لکھنے سے پہلے مجھے مینار پاکستان سے تقریبا 35 کلومیٹر دور لاہور کے مضافات میں کاہنہ کچے کے علاقے میں واقع ’مویشی منڈی‘ میں منعقد ہونے والے ’آزادی جلسوں‘ میں شرکت کے لیے اپنے سفر کی منصوبہ بندی کرنی تھی جہاں سے 23 مارچ 1940 کو آزادی کا سفر شروع ہوا تھا۔
میرے والد، نذیر احمد ملک، جنہیں آزادی کیلئے ان کی جدوجہد کے اعتراف میں تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا اس مبارک دن وہاں موجود تھے۔ سال 1971 میں، میں ان کے ساتھ وہاں گیا تاکہ ذوالفقار علی بھٹوکی تقریر سن سکوں، جب 1970 کے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے والا تھا۔
شیخ مجیب الرحمٰن کو خدشہ تھا کہ عوام کے مینڈیٹ کو پامال کیا جائے گا جس کے نتیجے میں مقامی آبادی بغاوت کرے گی۔ اس کے فورا بعد جناح کا پاکستان ٹوٹ گیا۔ اب تقریبا نصف صدی کے بعد بابائے قوم کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ (سابقہ ڈیکا) میں دوبارہ تسلیم کیا گیا ہے۔
درحقیقت ان کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے 14 اگست 1947 کو آزادی حاصل کی تھی جو اکتوبر 1958 میں اسکندر مرزا، جو پاکستان کے پہلے صدر تھے، اور ایوب خان، پہلے مقامی سپہ سالار، دونوں کی ملی بھگت سے چھین لی گئی۔ یہ دونوں سینڈہرسٹ ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹس تھے جہاں سامراجی فوجیوں کو تربیت دی جاتی تھی۔
مینارِ پاکستان (منٹو پارک) سے، جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا، لیکر ’مویشی منڈی‘ تک یہ آزادی کی اُس جدوجہد کا خلاصہ ہے جو گنوا دی گئی۔ جب محمد علی جناح مارچ 1940 میں لاہور پہنچے تو شہر میں کشیدگی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ پانچ دریاؤں کی اس سرزمین میں کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
اس وقت لاہور میں دو بڑی اینٹی پاکستان تحریکوں کے ہیڈکوارٹرز موجود تھے—ایک علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کی قیادت میں خاکسار تحریک اور دوسری مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں جماعتِ اسلامی۔ صوبہ اُس وقت یونینسٹ پارٹی کے زیرِ اقتدار تھا۔ جناح نے رات مامڈوٹ ولا میں گزاری جو ڈیوس روڈ کے قریب حبیب اللہ روڈ پر واقع تھا۔
مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) کے طلبہ نے پوری رات پہرہ دیا تھا۔ نہ کوئی سڑکیں بند ہوئیں اور نہ ہی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان دنوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا، مگر اب سرزمین پاک میں ایسا نہیں رہا۔ اکتوبر 1968 میں ہونے والے پہلے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ سے لے کر آج تک، ہم نے آزادی کو محفوظ رکھنے کے لیے سب کچھ برداشت کیا جو ہمیں ہمارے موروثی غلام والدین سے ملی تھی۔
اپنی ساٹھ سال سے زیادہ کی سرگرمیوں کے دوران میں نے کبھی اتنی توہین محسوس نہیں کی جتنی 21 ستمبر 2024 کو کی جہاں مجھے ایک عجیب سے دھوکے کا احساس ہوا۔ یہ سب سے بدترین منظر تھا، حتیٰ کہ مویشیوں کے لیے بھی موزوں نہیں تھا۔ واحد راستہ ’رنگ روڈ‘ کے نیچے سے گزرنے والے برساتی پانی کے نالے سے ہو کر تھا۔
سڑک کو کئی مقامات پر بلاک کیا گیا تھا اور لوگوں کو سڑک عبور کرنے سے روکنے کے لیے خار دار تاریں لگائی گئی تھیں، جہاں جلسہ ہو رہا تھا۔ وہاں پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔ اس معاملے مجھے ایک اور ڈپٹی کمشنر کی یاد دلائی جو چالیس کی دہائی میں ضلع کا حکمران تھا اور جس نے مقامی آبادی کی مرضی کے خلاف وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دورے کو کامیاب بنانے کیلئے انتظامات کیے تھے۔
انہوں نے نے پشاور جانے والی تمام سڑکوں پر ’ٹھنڈے پانی کے مراکز‘ قائم کیے تھے۔ ہدایات تھیں کہ پانی میں جمال گھوٹہ شامل کیا جائے تاکہ مظاہرین کو ناکام بنایا جاسکے۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھے جو بعد میں جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور پھر اس آئین کو منسوخ کر دیا جس کے تحت وہ منتخب ہوئے تھے۔ آج تک، نظام پر ’مرزا‘ قابض ہیں، جب تک انہیں نظام سے نکالا نہیں جاتا ہم بطور قوم کوئی مستقبل نہیں رکھتے۔ لاہور کے ڈی سی اور اس کی ٹیم کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ نظام کی صفائی ہوسکے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور پہلے صدر مسلم لیگ (پی ایم ایل) چوہدری خلیق الزمان دونوں نئے ملک میں ہجرت کرکے آئے تھے۔ چونکہ انہیں مقامی حمایت حاصل نہیں تھی، اس لیے وہ اپنی سیاسی حیثیت کے لیے ریاستی مشینری پر انحصار کرتے تھے۔ دوسری طرف مشرقی بازو کے رہنماؤں کو عوامی حمایت حاصل تھی۔
حسین شہید سہروردی جیسے بڑے لوگوں کو الگ ہونا پڑا اور انہوں نے اپنی پارٹیاں تشکیل دیں۔ عوام کا مینڈیٹ ان کے لئے اہم تھا کیونکہ انہیں عوامی حمایت حاصل تھی۔ 1906 میں اے آئی ایم ایل کی تشکیل کے ساتھ ڈیکا میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ مرزا ایوب گٹھ جوڑ کی جانب سے 1956 کے آئین کو منسوخ کرنے سے وفاق میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔ جمہوری نظام کے پھلنے پھولنے کے لئے آئین کا احترام ضروری ہے۔
1973 کے ورژن پر اس وقت حملے ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے جناح کے پاکستان کی باقیات ٹوٹ سکتی ہیں۔
پاکستان کو قیادت کے لیے قابل اعتماد اور منتخب سویلین قیادت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اقتدار ہمارے دور کے مرزاؤں کے پاس ہے جن کی طاقت کو ہمیشہ کم سمجھا گیا ہے۔ جن لوگوں نے انہیں ہٹانے کی کوشش کی ہے انہیں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ لیاقت علی کو 1951 میں قتل کیا گیا تھا، ساٹھ کی دہائی میں بیروت کے ہوٹل کے کمرے میں سہروردی پراسرار حالات میں مردہ پائے گئے تھے، فاطمہ جناح کا بھی یہی حشر ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا، بے نظیر کو قتل کر دیا گیا، اس وقت ملک کے مقبول ترین رہنما جیل میں ہیں جبکہ ان کے پیروکاروں کو صرف ’مویشی منڈیوں‘ اور کچرے کے ڈھیروں میں جمع ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک جمہوری ریاست اپنی طاقت عوام کی شرکت سے حاصل کرتی ہے نہ کہ عوام کو خارج کرنے سے جیسا کہ پاک سرزمین میں ہوتا رہا ہے۔
Comments